ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
حضرت اِمام حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب ندوی ) اِصلاحِ عقائد : مذہب کی بنیاد صحت ِعقائد پر ہے اِس میں فتور پیدا ہونے سے مذہب کی پوری عمارت متزلزل ہوجاتی ہے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو عقیدہ کی درستی اَور اُس کی اِصلاح کا ہمیشہ خیال رہا، اِس بارے میں آپ نہایت سختی سے کام لیتے تھے۔ شیعیانِ علی میں ایک جماعت کا عقیدہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عام اِنسانوں کی طرح وفات نہیں پائی اَور وہ قیامت سے پہلے ہی زندہ ہوجائیں گے ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اِس کی اِطلاع ہوئی تو فرمایا یہ لوگ جھوٹے ہیں خدا قسم ایسے لوگ کبھی شیعہ نہیں ہوسکتے اگر ہم کو یقین ہوتا کہ آپ عنقریب ظاہر ہوں گے تو نہ اُن کی میراث تقسیم کرتے نہ اُن کی عورتوں کا عقد ِ ثانی کرتے۔ (طبقات ابن سعد تذکرہ علی بن حسین)۔ عبادت : عبادتِ الٰہی آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا اَور وقت کا بڑا حصہ آپ اِس میں صرف فرماتے تھے۔ اَمیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے آپ کے حالات دریافت کیے اُس نے بتایا کہ فجر کی نماز کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک مصلّٰی پر بیٹھے رہتے ہیں پھر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اَور آنے جانے والوں سے ملتے ہیں دِن چڑھے چاشت پڑھ کر اُمہات المؤمنین کے پاس سلام کرنے کو جاتے ہیں پھر گھر ہو کر مسجد چلے آتے ہیں۔ (ا بن عساکر ج ٤ ص ٣٠٩) مکہ کے زمانۂ قیام میں معمول تھا کہ عصر کی نماز خانہ کعبہ میں باجماعت اَدا کرتے تھے نماز کے بعد طواف میں مشغول ہوجاتے، اَبو سعید راوی ہیں کہ حسن و حسین نے اِمام کے ساتھ نماز پڑھی پھر حجر اَسود کو بوسہ دے کر طواف کے سات پھیرے کیے اَور دو رکعت نماز پڑھی ،لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ دونوں خانوادہ ٔ نبوی کے چشم و چراغ ہیں تو مشتاقانِ جمال چاروں طرف سے پروانہ و ار ٹوٹ پڑے اَور بھیڑ کی وجہ سے راستہ