ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
حافظ رحمت اللہ صاحب کیرانوی کے سپرد کیا، آپ نے اُن سے صرف دو سال کے عرصے میں شعبان المعظم ١٣٤٦ھ / فروری ١٩٢٨ء میں قرآن کریم حفظ کرلیا۔ سترہ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تروایح میں قرآن مجید سنایا۔ حفظ قرآن کے بعد آپ کے والد ماجد آپ کو دہلی لے آئے جو علم کے مراکز میں سے ایک تھا علم دین کے حصول کے لیے آپ کے والد نے اِنہیں مفتی اعظم حضرت العلامہ مولانا محمد کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے سپرد کیا اَور مدرسۂ اَمینیہ دہلی میں حضرت مفتی اعظم قدس اللہ سرہ کی نگرانی وسرپرستی میں تعلیم کا آغاز ہوا۔ اُسی زمانے میں تجوید کی مشق کے لیے حضرت قاری سیّد حامد حسین صاحب کے پاس مدرسۂ عالیہ فتح پوری بھی جاتے رہے۔ اَبھی اُنہوں نے کافیہ کی تکمیل تک درسیات سے فراغت پائی تھی کہ ١٣٥١ھ / ١٩٣٣ء میں دارُ العلوم دیوبند میں داخل کرادیا گیا۔ دورانِ تعلیم وہ ایسے بیمار ہوئے کہ اُنہیں واپس دہلی آنا پڑا، صحت کے بعد اُنہیں مدرسۂ عالیہ فتح پوری میں داخل کرادیا گیا یہاں حضرت قاری سیّد حامد حسین صاحب سے اِستفادہ مزید آسان ہوگیا جس کے لیے پہلے کئی میل کا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ مدرسۂ فتح پوری میں اُن کے داخلے کی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ فتح پوری کے تاریخی مدرسے میں اُنہوں نے موقوف علیہ (مشکوٰة شریف) تک تعلیم حاصل کی۔ دورۂ حدیث شریف کے لیے جامعہ اِسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل چلے گئے اَور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب سے بخاری شریف پڑھ کر ١٣٥٧ھ / ١٩٣٩ء میں سند الفراغ حاصل کی، جامعہ اِسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں فارغ التحصیل ہونے والوں میں حضرت قاری صاحب کا ٤٧٧ واں نمبر ہے۔ (تاریخ جامعہ اِسلامیہ ص٤٥٠ طبع ہند) علم تجوید کی تکمیل کے لیے مدرسہ فرقانیہ لکھنو تشریف لے گئے اَور ١٢ ربیع الاوّل ١٣٥٨ھ مطابق ٢ مئی ١٩٢٩ء کو علم قراء ت کی سند حضرت قاری عبد المالک صاحب سے حاصل کی۔ فن طب میں حضرت حکیم مختار حسن ١ مرحوم (بارہ کھمبے والے، پہاڑ گنج) کی شاگردی اِختیار کی۔ اَساتذۂ کرام : حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ نے اپنے دَور کے بلند پایہ علمائے دین اَور ماہرین علوم وفنون سے اِستفادہ کیا تھا۔ وہ زندگی بھر اپنے اَساتذہ کے شکر گزار اَور اُن کے لیے دُعا گو رہے۔ ١ حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید (سابق مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن) کے والد گرامی۔