ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
چھٹ گئے اَور سب سے پہلے اَشعب بن قیس نے حصہ پایا۔ (ابن عساکر ج ٤ ص ٢١٤) آپ نہ صرف خود بھی فیاض تھے بلکہ دُوسروں کی فیاضی دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ کے کسی کھجور کے باغ کی طرف گزرے ،دیکھا ایک حبشی غلام ایک روٹی لیے ایک لقمہ خود کھاتا ہے اَور دُوسرا کتے کو دیتا ہے۔ اِسی طریقہ سے آدھی روٹی کتے کو کھلا دی۔ آپ نے غلام سے پوچھا کتے کو دُھتکار کیوں نہ دیا، اُس نے کہا کہ میری آنکھوںکو اِس کی آنکھوں سے حجاب معلوم ہوتا تھا، پھر پوچھا کہ تم کو ن ہو؟ اُس نے کہا اَبان بن عثمان کا غلام ہوں، پوچھا باغ کس کا ہے؟ معلوم ہوا اُنہی کا ہے ۔فرمایا اچھا جب تک میں لوٹ نہ آؤں تم کہیں نہ جانا۔ یہ کہہ کر اُسی وقت اَبان کے پاس گئے اَور باغ اَور غلام دونوں خرید کر واپس آئے اَور غلام سے کہا میں نے تم کو خرید لیا ،وہ تعظیمًا کھڑا ہوگیا اَور عرض کیا مولائی، خدا، رسول اَور آقا کی خدمت گزاری کے لیے حاضر ہوں جو حکم ملے۔ آپ نے فرمایا میں نے باغ بھی خرید لیا ،تم خدا کی راہ میں آزاد ہو اَور باغ تم کو ہبہ کرتا ہوں۔ غلام پر اِس کا یہ اَثر پڑا کہ اُس نے کہا آپ نے مجھے جس کی راہ میں آزاد فرمایا ہے اُس کی راہ میں میں یہ باغ دیتا ہوں ۔(ابن عساکر ج ٤ ص ٢١٤) اِس قسم کے واقعات بہت سے ہیں ۔آپ کی فیاضی مشہور تھی مدینہ میں جو حاجت مند آتا تھا لوگ اُس کو آپ ہی کے دَرِدولت کا پتہ دیتے تھے۔ خوش خلقی : اِس فیاضی کے ساتھ آپ حد درجہ خوش خلق بھی تھے،اپنا کام چھوڑ کر دُوسروں کی حاجت پوری فرماتے تھے، ایک مرتبہ ایک شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت لے کر گیا آپ معتکف تھے اِس لیے معذرت کردی، یہاں سے جواب پاکر وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ بھی معتکف تھے مگر اعتکاف سے نکل کر اُس کی حاجت پوری کردی، لوگوں نے کہا حسین نے تو اِس شخص سے اعتکاف کا عذر کیا تھا، فرمایا خدا کی راہ میں کسی بھائی کی حاجت پوری کردینا میرے نزدیک ایک مہینہ کے اعتکاف سے بہتر ہے۔ (ابن ِعساکر جلد نمبر ٤ تذکرہ حسین) ایک دِن آپ طواف کر رہے تھے اِسی حالت میں ایک شخص نے آپ کو اپنی ضرورت کے لیے ساتھ لے جانا چاہا، آپ طواف چھوڑ کر اُس کے ساتھ ہو گئے اَور جب اُس کی ضرورت پوری کر کے واپس ہوئے تو کسی حاسد نے اعتراض کیا کہ آپ طواف چھوڑ کر اُس کے ساتھ چلے گئے؟ فرمایا آنحضرت ۖ کا فرمان