ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
رُک گیا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اِس ہجوم میں گِھر گئے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ایک رکانی کی مدد سے اِنہیں ہجوم سے چھڑایا۔ ایک تختی پرسورۂ کہف لکھوائی تھی روزانہ سوتے وقت اِسے تلاوت فرماتے اَوربیویوں کے پاس ساتھ لے جاتے۔(ماخوذ اَز ابن عساکر ج ٤ ص ٢١٢ تا ٢١٤ ) ہر طرح کی سواریاں رکھتے ہوئے پا پیادہ حج کرتے تھے، اِمام نووی لکھتے ہیں اِمام حسن رضی اللہ عنہ نے متعدد حج پاپیادہ کیے ،فرماتے تھے کہ مجھے خدا سے حجاب معلوم ہوتاہے کہ اُس سے ملوں اَور اُس کے گھر پاپیادہ نہ گیا ہوں۔ (تہذیب الاسماء نووی ج ١ ص ١٥٨) صدقات و خیرات : صدقہ و خیرات اَور فیاضی و سیر چشمی آپ کا خاندانی وصف تھا لیکن جس فیاضی سے آپ خدا کی راہ میں اپنی دولت اَور مال و متاع لُٹاتے تھے اِس کی مثالیں کم ملیں گی ۔تین مرتبہ اپنے کُل مال کا آدھا حصہ خدا کی راہ میں دے دیا اَور تنصیف میں اِتنی شدت کی کہ دوجوتوں میں سے ایک جوتا بھی خیرات کردیا ۔(اُسد الغابہ ج ٢ ص ١٣ )۔ایک مرتبہ ایک شخص بیٹھا ہوا دس ہزار درہم کے لیے دُعا کر رہا تھا آپ نے سن لیا گھر جاکر اُس کے پا س دس ہزار نقد بھجوادِیے۔(ابن ِعساکر ج ٤ ص ٢١٤) آپ کی اِس فیاضی سے دوست و دُشمن یکساں فائدہ اُٹھاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص مدینہ آیا یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دُشمن تھا اُس کے پاس زاد ِرَاہ اَور سواری نہ تھی اُس نے مدینہ والوں سے سوال کیا ،کسی نے کہا یہاں حسن رضی اللہ عنہ سے بڑھ کوئی فیاض نہیں اُن کے پاس جاؤ چنانچہ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے سواری اَو ر زاد ِ رَاہ دونوں کا اِنتظام کردیا۔ لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ نے ایسے شخص کے ساتھ کیوں سلوک کیا، یہ آپ اَور آپ کے والد ِبزرگوار دونوں سے بغض رکھتا ہے ۔فرمایا کیا اپنی آبرو نہ بچاؤں۔(ابن عساکر ج ٤ ص ٢١٤) لیکن آپ کی دولت سے وہی لوگ متمتع ہوتے تھے جو دَرحقیقت اِس کے مستحق ہوتے۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک بڑی رقم فقراء اَور مساکین کے لیے جمع کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اِ س کی تقسیم کااعلان کر دیا لوگ سمجھے کہ اعلان صلائے عام ہے اِس لیے جوق دَرجوق جمع ہونے لگے آدمیوں کی یہ بھیڑ دیکھ کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ یہ رقم صرف فقراء ومساکین کے لیے ہے اِس اعلان پر تقریبًا آدھے آدمی