ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
مجھے بچوں کے پٹنے سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔بوقت ِضرورت اگرکبھی میں مارتاہوںتورَسی سے مارتاہوں اِس میں ہڈی ٹوٹنے کاخطرہ نہیں ہوتا۔ سختی کرنے کی حدود، سختی مقصود بالذات نہیں : سختی مقصودبالذات نہیں، مقصوداِصلاح ہے جب معلوم ہوجائے کہ سختی سے نفع نہیں ہوتاتونرمی سے اِصلاح کرتارہے مگراِس میں ضبط وتحمل کی ضرورت ہے جومشکل ہے کیونکہ یہ توآسان ہے کہ بالکل نہ بولے اَور یہ مشکل ہے کہ ناگواری میں تحمل سے بولے خاص طورپرجبکہ دُوسرا ٹیڑھا ہوتا چلاجائے۔ اَوراپنے گھروالوں کاحال خودہی ہرشخص جانتا ہے کہ نرمی سے اِصلاح ہوگی یاسختی سے،محض سختی کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں بھی جولوگوں کے ساتھ اُن کی اِصلاح کے لیے سختی کرتاہوں اَب چھوڑوں گا کیونکہ کچھ نفع نہیں ہوتا۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ کیا(ایسی حالت میں گھروالوں کو)مطلق العنان (یعنی بالکل آزاد) چھوڑ دیا جائے؟ فرمایا نہیں ، نصیحت کرتارہے۔ زیادہ سختی کرنے اَور مارنے کے نقصانات : آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس شریر بچہ کو بار بار پیٹا جائے، اُٹھتے بیٹھتے لات جوتے کا معاملہ رکھا جائے وہ بے حیا ہوجا تاہے پھر وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا۔ اِس سے قطع نظر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ زیادہ مارنا تعلیم وتربیت کے لیے بھی مفیدنہیں ہو تا بلکہ مضر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بچہ کے قوی (اَعضائ)کمزورہوجاتے ہیں ۔ دُوسرے یہ کہ ڈرکے مارے سارا پڑھا لکھا بھو ل جاتے ہیں ۔ تیسرے یہ کہ جب پٹتے پٹتے عادی ہوجاتاہے تو بے حیاء بن جاتا ہے پھرپیٹنے سے اُس پرکچھ اَثر نہیں ہوتا۔ اُس وقت یہ مرض لا علاج ہو جا تا ہے اَورساری عمر کے لیے ایک بری عادت یعنی بے حیا ئی اُس کی طبیعت میں داخل ہو جاتی ہے۔ سزا دینے کے غلط طریقے : ایسی وحشیانہ سزا جس کی برداشت نہ ہو سکے جیسے دھوپ میں کھڑا کر کے تیل چھو ڑنا ہنٹروں سے