ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر نے کے لیے جاتا ہے اَور اُس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے تو جانے والے کو ایک حج اَور ایک عمرہ کا ثواب ملتا ہے اَور اگر نہیں پوری ہوتی تو بھی ایک عمرہ کا،ایسی صورت میں کس طرح نہ جاتا، میں نے طواف کے بجائے پورے ایک حج اَور ایک عمرہ کا ثواب حاصل کیا اَور پھر واپس ہو کر طواف بھی پورا کیا۔ (ابن ِعساکر جلد نمبر ٤ تذکرہ حسین) ضبط و تحمل : آنحضرت ۖ نے ایک موقع پر اِرشاد فرمایا تھا کہ ''حسن کو میرا علم اَور میری صورت ملی ہے'' حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ذات اِس اِرشاد ِگرامی کی مجسم تصدیق تھی جو دستبرداری کے حالات میں پہلے گزر چکا ہے کہ نا آشنائے حقیقت آپ کو کن کن نازیباکلمات سے خطاب کرتے تھے، کوئی''مُذَلِّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ '' کوئی ''مُسَوِّدُ وُجُوْہِ الْمُسْلِمِیْن'' کوئی ''عَارُالْمُؤْمِنِیْنَ'' کہتا، لیکن اِس پیکر علم کی جبیں پر شکن نہ پڑتی اَور نہایت نرمی سے جواب دیتا کہ ''میں ایسا نہیں ہوں اَلبتہ مُلک کی طمع میں مسلمانوں کی خونریزی نہیں پسند کی۔ '' مروان جمعہ کے دِن منبر پر چڑھ کر بر سرِعام حضرت علی رضی اللہ عنہ پر شب و شتم کرتا تھا حضرت حسن رضی اللہ عنہ اُس کی گستاخیوں کو اپنے کانوں سے سنتے اَور خاموشی کے سوا کوئی جواب نہ دیتے۔ ایک مرتبہ اُس نے ایک شخص کی زبانی نہایت فحش باتیں کہلا بھیجیں۔ آپ نے سن کر صرف اِس قدر جواب دیا کہ اُس سے کہہ دینا کہ خدا کی قسم میں تم کو گالی دے کر تم سے دَشنام دہی کا داغ نہ مٹاؤں گا۔ ایک دِن ہم دونوں خدا کے حضور میں حاضر ہوں گے اگر تم سچے ہو تو خدا تمہاری سچائی کا بدلہ دے گا اَور اگر جھوٹے ہو تو وہ بڑا منتقم ہے۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی ص ١٨٩) ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اَور مروان میں کچھ گفتگو ہو رہی تھی، مروان نے رُو دَر رُد نہایت درشت کلمات اِستعمال کیے لیکن آپ سن کر خاموشی سے پی گئے۔ (تاریخ الخلفاء سیوطی ص ١٨٩) اِس معمولی ضبط و تحمل سے مروان جیسے شقی اَور سنگدل پر بھی اَثر تھا چنانچہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے جنازہ پر روتا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا اَب کیوں روتے ہو، تم نے اُن کے ساتھ کیا کیا نہ کیا۔ اُس نے پہاڑ کی طرف اِشارہ کر کے کہا، میں نے جو کچھ کیا وہ اِس سے زیادہ حلیم و برد بار کے ساتھ کیا۔(ابن عساکر ج ٤ ص ٢١٦)