ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
اَصل وجہ : اِس کی اَصل وجہ ایک تو انگریز کی ذہنی غلامی ہے کہ اپنی عقل اُن پر تنقید کے حق میں استعمال کرنے سے قاصر ہے اَور ایک وجہ یہ ہے کہ اِسلامی قوانین و نظام کے نفاذ کے بعد حکمرانوں کی مطلق العنانی متاثر ہوگی لہٰذا اِسلام کا صرف نام ہی لیا جائے اَور اِس کی عطا کردہ راحت و رحمت کو پس ِ پردہ چھپائے رکھا جائے ورنہ اِسلامی قوانین خود حکمرانوں پر حاوی ہوں گے جبکہ حکمران یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ اِن پر بھی کوئی اَور حاوی ہو۔ اِسمبلی : یہی حال ہماری اِسمبلی کا ہے وہ چاہتی ہے کہ ہم ہی قانون ساز اِدارہ ہیں ہم جو مناسب سمجھیں قانون بنادیں اِسلامی قانون کا وجود ہمیں حسب ِ دِلخواہ قانون بنانے سے روکے گا لہٰذا اِسے نہ آنے دو۔ یہ ہمارے ملک کے اُن حالات کا خلاصہ ہے جو مانع نظامِ اِسلام ہیں حکمرانِ اعلیٰ اَور اُن کی ترتیب دَادہ بے اِختیار شوریٰ اَور پھر بے طاقت اسمبلیاں کچھ اپنی خواہش اَور کچھ منبع قوت جو فوج کے اِنقلابی اَفراد پر مشتمل ہے، کا آج تک چلا آرہا ہے۔ سیدھا راستہ : آپ کہیں گے کہ اچھا! پھر سیدھا راستہ جس کے ذریعہ اِسلام کا نظام ِعدل نفاذ پذیر ہوسکے کیا ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے یہاں حکومت کے مسلک کا اعلان کرنا ہوگا کہ مملکت کا قانون فقہ حنفی پر مبنی ہوگا جیسے کہ سعودی عرب میں حکومت کا اعلان یہ ہے کہ وہ فقہ حنبلی پر چلتی ہے اَور حکومت ِ اِیران کا اعلان یہ ہے کہ اُس کا مسلک فقہ جعفری ہے۔ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ شیعہ حضرات کا مسلک کیا ہوگا کیونکہ وہ اپنے لیے فقہ جعفریہ کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر کہیں شیعہ بستی ہے تو وہاں اُن کے لیے اُن کے شیعہ مجتہد کو اُن کے مسلک کے مطابق فیصلہ دینے کا مجاز حکومت قرار دے دے گی۔ پھر سوال ہوگا کہ اہلِ حدیث کا کیا ہوگا کیونکہ وہ کسی اِمام کے پیروکار نہیں ہیں وہ غیر مقلد ہیں تو اِس کا بھی وہی جواب ہے کہ جہاں اِن کی آبادی ہوگی وہاں اِن کے کسی پسند کردہ عالم کو اُن کے فیصلوں کا حکومت