ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
گی چال بتادے گی کہ یہ فلاں عورت ہے رات کو اِس میں کمی ہوتی ہے بہت اَور وہاں چراغ ہی تو تھے اَور چراغ تو سڑکوں پر ہوتے بھی نہیں کوئی بیٹری وغیرہ بھی نہیں تھی، سڑک پر چراغ جل نہیں سکتے تو کوئی عورت گھر سے اگر نکلی بھی ہے تو پتہ چلانا مشکل ہے اَور سردیوں میں تو مرد بھی کپڑا اَوڑھتے ہیں تو مرد بھی مشتبہ ہوسکتے ہیںاَور بدن بھاری نہ ہو تو پھر عورت کے برابر لگ سکتے ہیں مرد ،تو کوئی پتہ نہیں چلتا تھا تو اِس واسطے اُس میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ،اَب یہ ہے کہ رات کو بھی دن ہوتا ہے پوری روشنیاں ہیں جو دِن میں حال وہ رات کو تو اَب دن اَور رات ایک ہے۔ ناگواری کے باوجود منع نہیں فرمایا : تو رسول اللہ ۖ کے اِس فتوے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی کو منع نہیں کرتے تھے کہ چلی جائیں وہاں کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اِذَا اسْتَأْذَنَ امْرَأَةُ اَحَدِکُمْ جب تم میں سے کسی کی عورت اِجازت چاہے مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی تو فَلَا یَمْنَعْ اُسے منع نہ کرو مسجد میں جانے سے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ناگوار تھا یہ کہ میری بیوی باہر جائے ،اُن کی بیوی سے کسی نے کہا کہ تم یہ کیا کرتی ہو تم تو جانتی ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہیں اُنہوں نے کہا پسند نہیں ہے تو منع کیوں نہیں کرتے مجھے تو اُن کو حدیث سُنائی اُنہوں نے کہ منع نہ کرنے کی وجہ تو یہ اِرشاد ہے رسول اللہ ۖ کا۔ حضرت عائشہ کی رائے، عورتوں کا مسجد میں آنا : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر یہ پتہ چل جاتا کہ عورتوں میں کیا خرابی ہے اَب تو پھر عورتوں کو مسجد میں جانے سے روک دیا جاتا جیسے بنی اِسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا ۔پوچھا گیا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا مسجدوں میں جانے سے ؟اُنہوں نے کہا کہ ہاں اَور رسول اللہ ۖ اگر حیات ہوتے تو یہ حکم ہوجاتا۔ تو یہ پرویزی کہتے ہیں کہ کیونکہ اُس زمانے میں عورتیں پڑھی لکھی نہیں ہوتی تھیں سمجھ کم ہوتی تھی اِس واسطے ایسے ہے مگر یہ بات غلط ہے ،عورتوں کی (دینی)معلومات ہمیشہ بہت رہی ہیں آخری دَور تک رہی ہیں اَور اَب بھی ہیں دین سے واقف اَور عالم عورتیں دُنیا میں موجود رہی ہیں اَور رہیں گی کیونکہ دین جو ہے وہ مردوں میں بھی رہے گا اَور عورتوں میں بھی رہے گا اَور دین بغیر علم کے ہو نہیں سکتا اَور علم عورتوں میں بھی رہے گا شروع سے یہی ہے ۔