ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
خود کو چھپا لیا، جب لوگ اَندر آگئے تو چوکیدار نے دروازہ بند کردیا اَور چابیاں لکڑی کے کھونٹے سے لٹکادیں۔ میں نے اُٹھ کر چابیاں اُٹھالیں اَور دروازہ کھول دیا، کچھ لوگ رات گئے تک اَبو رَافع کے کمرے میں اُس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ جب یہ خوش گپیاں ختم ہوئیں اَور اُس کے ساتھی چلے گئے تو میں اُس کی طرف آیا۔ میں نے اُس کا دروازہ کھولا اَور پھر اِسے اَندر سے بند کرلیا۔ میں نے سوچا کہ لوگوں کو اگر میرا پتہ چل بھی جائے تو مجھے اُس وقت پکڑا نہیں جانا چاہیے جب تک اُس کو قتل نہ کردُوں۔ میں اُس تک پہنچا تووہ ایک اَندھیرے کمرے میں اہل ِخانہ کے درمیان سو رہا تھا، میں اُسے پہچان نہیں سکتا تھا لہٰذا میں نے اُسے پکارا ''اَے اَبو رَافع'' وہ فورًا بولا ''کون ہو تم'' میں آواز کی سمت بڑھااَور اُس پر تلوار سے حملہ کردیا۔ بے یقینی کی صورتحال کے سبب میں اُسے قتل نہ کر سکا، لہٰذا باہر آکر ایک لمحہ بعد ہی میں نے پکارا ''اَبو رَافع! یہ آوازیں کیسی تھیں؟ '' اُس نے کہا ''تمہاری ماں تمہیں روئے یہاں کوئی گھس آیا ہے اُس نے مجھ پر تلوار سے حملہ کیا ہے۔'' اِس بار میں تیار تھا، آواز کی سمت زوردَار حملہ کیا مگر اُسے مار نہیں سکا۔ میں نے تلوار کی نوک اُس کے پیٹ پر رکھ کر اِتنی زور سے دبائی کہ اُس کی پشت سے جا ٹکرائی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ مارا جاچکا۔ میں نے ایک ایک کر کے دروازے کھولے اَور سیڑھیوں تک جا پہنچا، میں سمجھا میں زمین پر پہنچ گیا ہوں۔ میں نے قدم باہر رکھا تو نیچے گر پڑا اَور میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے اِسے پگڑی سے باندھا اَور اُس وقت تک چلتا رہا جب تک گیٹ پر نہیں پہنچ گیا۔ میں نے فیصلہ کیاکہ اُس وقت تک باہر نہیں جاؤں گا جب تک کہ مجھے اُس کی موت کی خبر نہیں مل جاتی۔ صبح جب مرغ اَذان دے رہے تھے تو وہاں کے اعلان کرنے والے نے دیوار پر چڑھ کر اعلان کیا کہ ''میں حجاج کے تاجر اَبورَافع کی موت کا اعلان کرتاہوں'' یہ سن کر میں باہر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اَور کہا کہ اَب ہمیں خود کو محفوظ کر لینا چاہیے لہٰذا ہم وہاں سے چل پڑے اَور رسول اللہ ۖ کے پاس پہنچ گئے۔