ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
پردوں سے لپٹا ہواہے ، آپ ۖ نے فرمایااُسے قتل کردو۔ ''(بخاری : 4035) اِمام مالک کی رائے یہ ہے کہ آپ ۖ اُس روزحالت ِاِحرام میں نہیں تھے ۔ ٭ ''حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا: کعب بن اَشرف کوکون سنبھالے گا۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اُسے قتل کردُوں؟ آپ ۖنے فرمایا: ہاں۔ اُنھوں عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجیے کہ میں (اُسے اعتمادمیں لینے کی خاطراُس سے کچھ ) خلافِ حقیقت باتیں کرسکوں ، آپ ۖ نے فرمایا اِجازت ہے ۔''(بخاری :3023) ٭ ''حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اَللہ کے رسول ۖ نے ایک یہودی اَبورَافع کوقتل کرنے کے لیے اَنصار میں سے کچھ لوگوں کو بھیجا ۔ عبداللہ بن عتیق کو اُن لوگوں کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، اَبورَافع رسول اللہ ۖ کی دِل آزاری کیا کرتا تھا۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ رسولِ خدا کے دُشمنوں کی بھی آپ ۖ کے خلاف مدد کیا کرتاتھا۔ وہ سر زمین ِحجازپرموجود اپنے قلعے میں رہتاتھا۔ جب وہ لوگ قلعہ کے قریب پہنچے اُس وقت سورج غروب ہوچکاتھا اَورلوگ اپنے مویشیوں کو واپس اپنے گھروں کی طرف لارہے تھے۔حضرت عبداللہ (بن عتیق) نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں ،میں جا کر قلعہ کے گیٹ پر موجود چوکیدار سے ایک چال چلنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ میں قلعے میں داخل ہو سکوں۔ پس عبداللہ قلعہ کی طرف چل دیے اَور جب وہ قلعہ کے دروازے پر پہنچے تو اُنہوں نے خود کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اُنہوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ قدرت کے کسی بُلاوے کا جواب دے رہے ہیں ۔لوگ اَندر جا چکے تھے اَور چوکیدار (جو عبداللہ کو قلعہ کا خادم سمجھ رہا تھا) نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا : ''اے اللہ کے بندے! اگر تم اَندر آنا چاہتے ہو تو آجاؤ کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں۔ '' عبداللہ بن عتیق اپنی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں ''پس میں اَندر چلا گیا اَور