ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
متعلقہ قوانین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں توہین رسالت کے قوانین (BLASPHEMY LAW) کی روشنی میںجائزہ لیا ۔ (٥) توہین ِرسالت قوانین پرحالیہ بحث مسماة شہر بانور حمن (شیریں رحمن) ایم این اے کی جانب سے پیش کیے گئے ایک پرائیویٹ ممبر بل کے بعد شروع ہوئی، لہٰذا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے سوال کا جواب پہلے دیا جانا ضروری ہے۔ اِس سلسلہ میں تسلیم شدہ پوزیشن کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نےPLD 1991 FSC PAGE 10 پر رپورٹ شدہ اپنے فیصلہ میں اِس قانون کو قرآن اَور سنت ِرسول سے اَخذ کردہ اَور درست قرار دیا ہے۔ آئین کی دفعہ 203-D کے تحت وفاقی شرعی عدالت ہی اِس اَمر کی مجاز ہے کہ وہ کسی قانون کے اِسلامی یا غیر اِسلامی ہونے کا فیصلہ کرے۔ آئینی شق 203-D کے مطالعہ کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی جس میں کہا گیاہے کہ : ''عدالت کے اِختیارات اَور فرائض عدالت اَز خود نوٹس پر یاپاکستان کے کسی شہری کی پٹیشن پر یاوفاقی یا کسی صوبائی حکومت کی پٹیشن پر یہ اِختیار رکھتی ہے کہ وہ قرآن اَور سنتِ رسول کے اُصولوں کی روشنی میں کسی بھی قانون یااُس کی شق کے اِسلام کے مطابق یا اِسلام سے متصادم ہونے کا فیصلہ کرسکے۔ '' (٦) یہ اَمر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ قوانین وضع کرنے، اُن پر نظر ثانی کرنے، اُن میں ترمیم کرنے، اُن کے تنسیخ کرنے کے وسیع تر اِختیارات رکھتی ہے۔ پارلیمانی طریقہ کار اَور قانون سازی کی روایات کے مطابق پارلیمنٹ کی طرف سے وضع کردہ یہ قانون کئی دہائیوںسے نافذالعمل ہے اَور آئینی عدالت کے کڑے معیار پر پورا اُتر چکا ہے۔ نجی بل جو میڈیا رپورٹ کے مطابق متعلقہ رکن نے زبانی طورپر واپس لے لیا ہے اَور اِس اَمر کی تردید بھی نہیں آئی۔ اِس میں توہین رسالت قانون کے مجوزہ پیراگراف کا وفاقی شرعی عدالت آئینی شق 203-D کی ذیلی شق2 کے تحت پہلے ہی باریک بینی سے جائزہ لے چکی ہے اَور اِس کے فیصلہ کی رُو سے موجود قانون قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اَور قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی متبادل سزا اِسلامی تعلیمات سے متصادم ہوگی۔ آئین کی شق-D 203 کی ذیلی شق b) (کے