ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2011 |
اكستان |
|
ہے کہ ایک حکومت میں قاضی شافعی بھی رہے ہیں مالکی بھی رہے ہیں اَور یہ طے ہے کہ وہ مدعی یا مدعیٰ علیہ کے مسلک کے پابند نہ ہوں گے بلکہ اپنے مسلک کی رُو سے فیصلہ دیں گے۔ اُنہیں مثال کے طور پر میں نے یہ مسئلہ بتلایا کہ اگر کسی حنفی مرد نے عورت کو کنایةً ایک طلاق دے دی یعنی بجائے لفظ ِ طلاق کے اُس نے کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس کے دونوں معنٰی ہوسکتے ہوں لیکن اُس کی مراد طلاق ہی تھی تو ایسی صورت میں ایک طلاق ہوجائے گی وہ آپس میں اگر راضی ہوں تو نکاح دوبارہ کرلیں لیکن اگر کسی طرح یہ قضیہ ایسے قاضی (جج) کے سامنے پیش کردیا گیا جو شافعی مسلک کا تھا اَور اُس نے اپنے مسلک کے مطابق یہ فیصلہ دے دیا کہ دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں اَور شوہر سے کہا کہ تم رُجوع کرلو شوہر نے رُجوع کرلیا تو حنفی مسلک میں یہ فیصلہ واجب التسلیم ہوگا جدید نکاح کی ضرورت نہیں۔ اِس کے برعکس اگر مدعی، مدعیٰ علیہ دونوں شافعی ہوںتو قاضی حنفی مسلک کو بالاتفاق مدعی و مدعیٰ علیہ کے مسلک پر فوقیت حاصل رہے گی اِس اُصول کے تحت ہر دَور میں ہر مسلک کے جج بِلااِختلاف و نزاع کام کرتے آئیں ہیں۔ گویا اَصل مدار فقہ پر رہا ہے وہ حنفی، مالکی ،شافعی ہو یا حنبلی۔ پاکستان میں ضرورتًا اِن چاروں ائمہ کرام کے ماننے والوں کے علاوہ بھی فقہ جعفریہ ماننے والوں کو اَور کسی بھی فقہ کے نہ ماننے والے طبقہ کو اُن کے آپس کے پیش آمدہ مسائل حل کرنے کے لیے اُن کا قاضی دیا جاسکتا ہے یہ معروف پرسنل لاء تو نہ ہوگا یہ '' پرائیویٹ لائ'' (یعنی) ایک طبقہ یا گروہ کا قانون ہوگا۔ بعض حضرات جن میں سادہ لوح علماء بھی شامل ہیں یہ کہتے ہیں کہ نظامِ شریعت تدریجًا تھوڑا تھوڑا کرکے لایا جائے حالانکہ یہ بات بالکل ہی غلط ہے ۔اِسلامی نظام ایک مکمل ضابطہ ٔحیات ہے جب وہ آئے گا تو ہر شعبۂ زندگی پر اَثر اَنداز ہوگا۔ اگر آدھا تہائی لایا گیا تو وہ اُن قوانین کی موجودگی میں نہیں چلے گا آدھی مشین کسی سائز کی ہو اَور آدھی کسی اَور سائز کی تو کیا اُنہیں جوڑکر چلایا جاسکتا ہے؟ جس طرح یہ ممکن نہیں اِسی طرح ''قانونِ شرع'' قانونِ اَنگریز بلکہ تعزیرات ہند کا جمع ہونا ممکن نہیں۔ یہ وہ قوانین ہیں جو اَنگریزوں نے اپنی غلام قوم کے لیے اِس غرض سے بنائے تھے کہ اِن میں جھگڑے چلتے ہی رہیں ،بیس بیس سال مقدمہ بازی میں صرف کریں نسلًا بعد نسل عداوتیں چلتی رہیں اِنصاف اَور دَادرَسی میں عدل و اِنصاف ہی کے نام پر زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو، ہر ممکن کوشش ہو کہ قانون ہی کے نام پر شکوک پیدا کیے جاسکیں فورًا ہی فیصلہ ہرگز نہ ہونے پائے جبکہ اِسلام کے قوانین میں فوری دَادرَسی اَور اِنصاف دِلانا عدلیہ کی ذمّہ داری ہے اِسی سے اَمن ہوتا ہے