ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
جبری تعلیم سے مستثنٰی کرسکتی ہے ۔ اور آپ کے یہاں پڑھنے والے بچے مقدمات کی دست برد سے محفوظ رہیں گے لیکن درجات حفظ بالکل علیحدہ ہوں اور تااختتام حفظ بچے کے دماغ کو منتشر نہ کیا جائے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد بچے کو فارسی یا عربی کی طرف متوجہ کرایا جائے۔ ایک خیال یہ ہے کہ فارسی زبان کی تعلیم بیکار ہے ۔ عربی کی ابتدائی کتابیں اُردو میں ہونی چاہئیں ۔ فارسی صرف اُن کو پڑھائی جائے جو اس زبان کو حاصل کرنا چاہیں مطلب یہ ہے کہ فارسی زبان عربی کا ذریعہ تعلیم نہ رہے بلکہ انگریزی زبان کی طرح علیحدہ زبان قراردیا جائے اور صرف ان کو پڑھائی جائے جو اس زبان کو سیکھنا چاہیں ،عربی زبان کے لیے اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے ۔یہ خیال درست ہے مگر احقر کے خیال میں اب تک جو کتابیں اُردو میں لکھی گئی ہیں اُن سے عربی تعلیم میں اور طوالت ہو جاتی ہے لہٰذاگر علم الصیغہ اور نحو میر کا ترجمہ اُردو میں ہو جائے تواحقر کے خیال میں وہ بہتر اور مختصر رہے گا۔ عربی درجات کے نصاب میں اس قدر ترمیم تو ضروری ہے کہ منطق اور فلسفہ جو علوم آلیہ ہیں ،متون پڑھا کر نفسِ مسئلہ کی تعلیم اور اُس کی تمرین پر زور دیا جائے۔ شروح کی طوالت کو حذف کردیا جائے البتہ متون میں بعض مناسب اضافہ ضرور کردیا جائے مثلاً معانی میں مختصر المعانی حذف کرکے تلخیص المفتاح کے بعد معانی کی کوئی اورکتاب پڑھائی جائے۔ (اس کے متعلق مولانا عبدالحق صاحب مدیر جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد سے استصواب کیا جائے۔) نحو اور ادب کی تعلیم کا طرز کیا ہو پہلے ادب ہو یا پہلے نحو وصرف۔ اس مسئلہ میں آپ مولانا معراج الحق صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند ضلع سہارنپورسے مشورہ فرمائیے۔ فنونِ آلیہ کے سلسلہ میں جغرافیہ اور تاریخ کا اضافہ از بس ضروری ہے کچھ کتب تاریخ و جغرافیہ کا ان کو مطالعہ کرایا جائے ۔ مطالعہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ چند طلبہ کی چھوٹی سی جماعت بناکر ہدایت کی جائے کہ ایک صاحب کتاب پڑھیں دوسرے سنتے ر ہیں ۔ اس طرح کتابوں کا مطالعہ کرایا جائے اور ہر کتاب کے ختم پر اس کا امتحان لے کر دوسری کتاب کے مطالعہ کی فرمائش کی جائے۔ رسول کریم، قصص القرآن، سیرة النبی ،الفاروق ،شاندار ماضی ،وغیرہ کا مطالعہ اسی طرح کرایا جائے۔ علومِ مقصودہ کے نصاب میں جو کتابیں ہیں اُن میں کمی کی شکایت ہے یعنی ضرورت سے بہت کم ہیں ۔زیادتی کی شکایت نہیں ۔لہٰذا احقر کے خیال میں کم کرنے کا سوال نہیں پیدا ہوتا ۔صرف یہ کہ کنز الدقائق اور شرح وقایہ کے بجائے شرح نقایہ مکمل طورپر پڑھائی جائے۔ الفوز الکبیر اور نخبة الفکر کی تعلیم لازمی ہے اور الاتقان فی علوم القرآن کے بھی کچھ حصے داخلِ درس ہونے چاہئیں خیر الا صول کے مطالعہ کا احقرکو شرف حاصل نہیں ہوا۔