ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
راضی نہ ہو اور جو کوئی اللہ و رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا۔ اس آیت کے نزول پر زینب اور ان کے بھائی نکاح پر راضی ہوگئے اور نکاح ہوگیا لیکن خاندانی برتری کا تصور چونکہ باقی تھا دونوں میں موافقت نہ ہو سکی ۔حضرت زید جب شکایت حضور ۖ کے پاس لے کر جاتے اور طلاق کا ارادہ ظاہر کرتے تو حضور ۖ اس خفگی پر صبر کی تلقین کرتے اور طلاق دینے سے منع فرماتے ۔ یہ خیال تھا کہ ایک تو آزاد کردہ غلام سے نکاح کے عار کو برداشت کیا، اب اگر طلاق دی گئی تو طلاق کا عار بھی لگ جائے گا تو زیادہ ناراضگی پیدا ہوگی ۔پھر جب موافقت ناممکن ہوگئی تو زید نے طلاق دے دی۔ طلاق کی جب عدت گزری تو اللہ کا منشاء ایک دوسری رسمِ جاہلیت کے ازالے کا ہوا کہ خود حضور ۖ کے عمل سے اس رسمِ جاہلیت کو منہدم کیا جائے ، توحضور ۖ کو اگرچہ منشاء الٰہی کی تکمیل سے عذر نہ تھا لیکن یہ خیال رہا کہ عرب میں بدنامی ہوگی کہ وہ لوگ منہ بولے بیٹے کی جورو کو حرا م کہتے تھے اور حضور ۖ خود منہ بولے بیٹے کی جور کو گھر میں رکھ لیں، پھر حضور ۖ کے دل میں یہ خیال آیا کہ حضرتِ زینب اور اُن کے خاندان کو رواجِ عرب کے مطابق دوقسم کی رُسوائی ہوئی ایک آزاد کردہ غلام سے نکاح کی ،دوم طلاق کی ، لیکن منشاء الٰہی تھا کہ اس زخم رسوائی کا مداوا ہو جس کے لیے بہترین مرہم صرف یہ ہوسکتا تھا کہ حضور علیہ السلام خود زینب کو اپنی زوجیت کا شرف بخشیں لیکن ساتھ ہی عرب کی اس رسوائی کا بھی ڈر تھا کہ یہ طعن دیا جائے گا کہ آپ نے (لے پالک ) بیٹے کی جورو سے نکاح کیا، کیونکہ عرب لوگ متبنی کو بیٹا ہی سمجھتے تھے لیکن منشاء الٰہی کے تحت آپ نے عمل فرمایا اور اس جاہلانہ قدیم رسم کا انقطاع فرمادیا۔ حضور ۖ کے اس نکاح سے معاشرتی نظاموں کی اصلاح ہوئی اور مساواتِ بشری کی ایک عمدہ نظیر بھی قائم کی گئی لیکن عجیب بات ہے کہ مستشرقین نے صلیبی جنگوں کی موروثی عداوت سے جھوٹے اور بے سند اضافے کرکے اس کو عشقیہ داستان بنایا، گویا آپ اس نکاح کے لیے بے تاب تھے ، اس متعصبانہ غلط الزام تراشی کی تردید کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ حضرت زینب حضور کی پھوپھی زاد بہن تھیں، بچپن کے زمانے سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے ۔ حضور علیہ السلام نے خود ہی اِن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ سے کرایا۔ جو ان کوناگوار بھی گزرا لیکن پھر خداا و ررسول کے حکم کی مجبوری سے نکاح پر راضی ہوئیں ، میں کہتا ہوں کہ اگر حضور علیہ السلام اس نکاح کے لیے بے بیقرار تھے تو مکہ معظمہ میں حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد خود ان سے نکاح کرلیتے یابعد ازہجرت جب آپ نے ان کا ٤ھ میں زید سے نکاح کرانا چاہا تو زید بن حارثہ کے بجائے خود ان سے نکاح کر لیتے، وہ کم نسبی کی وجہ سے زیدکے نکاح سے راضی نہیں تھیں تو خود ان سے نکاح کر لینے میں کیا رکاوٹ تھی اور اب بیوہ ہونے کے بعد نکاح میں کیا کشش تھی ۔ معلوم ہوا کہ یہ مسیحی استشراق کی غلط داستان ہے ، جو سراسر عقل کے خلاف ہے۔