Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004

اكستان

37 - 65
راضی نہ ہو اور جو کوئی اللہ و رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا۔ اس آیت کے نزول پر زینب اور ان کے بھائی نکاح پر راضی ہوگئے اور نکاح ہوگیا لیکن خاندانی برتری کا تصور چونکہ باقی تھا دونوں میں موافقت نہ ہو سکی ۔حضرت زید جب شکایت حضور  ۖ  کے پاس لے کر جاتے اور طلاق کا ارادہ ظاہر کرتے تو حضور  ۖ  اس خفگی پر صبر کی تلقین کرتے اور طلاق دینے سے منع فرماتے ۔ یہ خیال تھا کہ ایک تو آزاد کردہ غلام سے نکاح کے عار کو برداشت کیا، اب اگر طلاق دی گئی تو طلاق کا عار بھی لگ جائے گا تو زیادہ ناراضگی پیدا ہوگی ۔پھر جب موافقت ناممکن ہوگئی تو زید نے طلاق دے دی۔ طلاق کی جب عدت گزری تو اللہ کا منشاء ایک دوسری رسمِ جاہلیت کے ازالے کا ہوا کہ خود حضور  ۖ  کے عمل سے اس رسمِ جاہلیت کو منہدم کیا جائے ، توحضور  ۖ  کو اگرچہ منشاء الٰہی کی تکمیل سے عذر نہ تھا لیکن یہ خیال رہا کہ عرب میں بدنامی ہوگی کہ وہ لوگ منہ بولے بیٹے کی جورو کو حرا م کہتے تھے اور حضور  ۖ  خود منہ بولے بیٹے کی جور کو گھر میں رکھ لیں، پھر حضور  ۖ  کے دل میں یہ خیال آیا کہ حضرتِ زینب اور اُن کے خاندان کو رواجِ عرب کے مطابق دوقسم کی رُسوائی ہوئی ایک آزاد کردہ غلام سے نکاح کی ،دوم طلاق کی ، لیکن منشاء الٰہی تھا کہ اس زخم رسوائی کا مداوا ہو جس کے لیے بہترین مرہم صرف یہ ہوسکتا تھا کہ حضور علیہ السلام خود زینب کو اپنی زوجیت کا شرف بخشیں لیکن ساتھ ہی عرب کی اس رسوائی کا بھی ڈر تھا کہ یہ طعن دیا جائے گا کہ آپ نے (لے پالک ) بیٹے کی جورو سے نکاح کیا، کیونکہ عرب لوگ متبنی کو بیٹا ہی سمجھتے تھے لیکن منشاء الٰہی کے تحت آپ نے عمل فرمایا اور اس جاہلانہ قدیم رسم کا انقطاع فرمادیا۔
	 حضور  ۖ کے اس نکاح سے معاشرتی نظاموں کی اصلاح ہوئی اور مساواتِ بشری کی ایک عمدہ نظیر بھی قائم کی گئی لیکن عجیب بات ہے کہ مستشرقین نے صلیبی جنگوں کی موروثی عداوت سے جھوٹے اور بے سند اضافے کرکے اس کو عشقیہ داستان بنایا، گویا آپ اس نکاح کے لیے بے تاب تھے ، اس متعصبانہ غلط الزام تراشی کی تردید کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ حضرت زینب  حضور کی پھوپھی زاد بہن تھیں، بچپن کے زمانے سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے ۔ حضور علیہ السلام نے خود ہی اِن کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ سے کرایا۔ جو ان کوناگوار بھی گزرا لیکن پھر خداا و ررسول کے حکم کی مجبوری سے نکاح پر راضی ہوئیں ، میں کہتا ہوں کہ اگر حضور علیہ السلام اس نکاح کے لیے بے بیقرار تھے تو مکہ معظمہ میں حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد خود ان سے نکاح کرلیتے یابعد ازہجرت جب آپ نے ان کا ٤ھ میں زید سے نکاح کرانا چاہا تو زید بن حارثہ کے بجائے خود ان سے نکاح کر لیتے، وہ کم نسبی کی وجہ سے زیدکے نکاح سے راضی نہیں تھیں تو خود ان سے نکاح کر لینے میں کیا رکاوٹ تھی اور اب بیوہ ہونے کے بعد نکاح میں کیا کشش تھی ۔ معلوم ہوا کہ یہ مسیحی استشراق کی غلط داستان ہے ، جو سراسر عقل کے خلاف ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
70 اس شمارے میں 3 1
71 حرف آغاز 4 1
72 پاکستان میں کیا کیا ہوگا 7 71
73 درس حدیث 9 1
74 بدخصلت یہودیوں کی رائے کا تضاد : 9 73
75 اسلام لانے کی وجہ : 9 73
76 یہودی حق کو چھپاتے تھے : 10 73
77 خواب اور جنت کی بشارت : 10 73
78 باوضو رہنے اور نفل پڑھنے کی فضیلت : 12 73
79 سرورِ کونین فخردوعالم ۖ کی حیات ِ طیبہ ایک نظرمیں 13 1
80 ظہورِ قدسی : 13 79
81 ولادت آنحضرت ۖ : 13 79
82 طلوع آفتابِ رسالت : 14 79
83 متفرقات : 14 79
84 سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے : 14 79
85 ہجرت ِنبوی : 15 79
86 اسلامی ریاست کی ابتداء : 16 79
87 آنحضرت ۖ کے چچا : 17 79
88 آنحضرت ۖ کی پھوپھیاں : 17 79
89 آنحضرت ۖ کی والدہ ماجدہ : 17 79
90 ضمیمہ 17 79
91 آنحضرت ۖ کی ازواجِ مطہرات 18 79
92 آنحضرت ۖ کی باندیاں : 19 79
93 آنحضرت ۖ کے صاحبزادے : 19 79
94 آنحضرت ۖ کی صاحبزادیاں : 19 79
95 جناب حضرت مولانا حاجی سیّد محمد عابد صاحب 20 1
96 دیوبند ، دارالعلوم او ر ملکی حالات 20 95
97 قیام دارالعلوم 22 95
98 ایک الہامی تجویز : 25 95
99 وفیات 29 1
100 موت العَالِم موت العَالَم 29 99
102 نعتِ رسول ۖ 31 1
103 سیرة نبوی اور مستشرقین 33 1
104 تعددِ زوجات : 33 103
105 سبب ِاول ....... تعددِ زوجات کا اصل سبب تعلیم ِدین تھا : 33 103
106 سبب ِدوم : 34 103
107 سبب ِسوم : 35 103
108 حضرت جویریہ : 35 103
109 حضرت اُمِ حبیبہ : 35 103
110 حضرت صفیہ : 36 103
111 حضرت زینب : 36 103
112 وحی پر مستشرقین کا اعتراض : 38 103
113 جامعہ مدنیہ جدید کی زیرِ تعمیر عمارت کا نقشہ 39 1
114 نصاب ِ تعلیم 40 1
115 مکتوب گرامی حضر ت مولانامحمد میاں 40 114
116 خواتین کا عشق رسالت 43 1
117 حضرت سیّدہ اُم سلیم کا عشق ِرسالت : 43 116
118 حضرت اُم سلیم کا بچوں کو حب ِرسالت کی تعلیم دینا : 44 116
119 حضرت سیّدہ اُم عمارہ کا میدانِ جہاد میں عشقِ رسالت : 44 116
120 حضرت سیّدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق کا عشق رسالت : 45 116
121 حضرت سیّدہ فاطمہ بنت عتبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حُبِّ رسالت : 45 116
122 عشق رسالت کا تقاضہ تعمیل ِحکمِ رسالت ہے : 45 116
123 رسول اللہ ۖ کی محبت وبقاء پر پورے خاندان کو ترجیح دینا : 46 116
124 رسول اللہ ۖ کی محبت میں اپنی جان قربان کردینا : 47 116
125 خواتین کے حُبِّ رسالت کا اظہار میدان جنگ میں : 47 116
126 حضرت صفیہ کی بہادری : 47 116
127 ایک اور مسلم خاتون کا کردار : 47 116
128 اُم عطیہ نے سات غزوات میں آپ کے ساتھ شرکت کی : 47 116
129 اُم عمارة کا مدعی نبوت مسلیمہ کذاب کے خلاف جذبہ رسالت : 48 116
130 حضرت خنساء کا عشق رسول اور اپنے بیٹوں کو شہادت کی وصیت کرنا : 48 116
131 بھیج تو اُن پہ دروداُن پہ صلٰوة اُن پہ سلام 50 1
132 دینی مسائل 51 1
133 ( نماز میں حدث ہو جانے کا بیان ) 51 132
134 جن وجہوں سے نماز کا توڑ دینا درست ہے اُن کا بیان : 53 132
135 حاصل مطالعہ 54 1
136 ایک عجیب مسئلہ کا حل : 54 135
137 عَاقِلُ اَھْلِ الْاُنْدُلُسِ : 54 135
138 ماں کی بددعاء : 55 135
140 سکندر ذوالقرنین اور ایک صالح قوم : 56 135
141 شریعت کا حکم توڑنے کا انجام : 59 135
142 حجاب کا استعمال کینسر سے بچاتا ہے : 60 135
143 تقریظ وتنقید 61 1
144 بقیہ دینی مسائل 64 132
Flag Counter