ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
یہ چندہ کا واقعہ بروز جمعہ ماہ ذی قعدہ ١٢٨٢ھ / ١٨٦٦ء میں ہوا( تاریخ دیوبند ص٣٣١تا ٣٣٣)۔مدرسہ کا آغاز ١٨٥٧ء سے تقریباً دس سال بعد ہوا پنجشبہ کا دن تھا اور١٥محرم الحرام ١٢٨٣ھ ( ٣٠مئی ١٨٦٦ء )تھی۔ استاد کا اسم گرامی بھی محمود تھا اور شاگرد بھی محمود (یعنی شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب عثمانی نوراللہ مرقدہما )جب یہ خبر عام ہوئی کہ علم عربی پڑھانے کو مدرسہ قائم ہوگیا ہے تو طالب علم ٧ جوق درجوق آنے لگے ۔یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصہ میں بباعث کثرتِ طلبا مسجد میں گنجائش نہیں رہی تب ایک مکان ٨ کرایہ پر لیا گیا ہے مگر اس قدر کثرت طلباء کی ہوئی کہ تنہا ملا محمود صاحب تعلیم نہ دے سکے چنانچہ اس عرصہ چندہ بھی زیادہ آنے لگا ۔اس وقت حاجی صاحب نے مولوی محمد قاسم صاحب و مولوی فضل الرحمن صاحب ،مولوی ذوالفقار علی صاحب ومولوی مہتاب علی صاحب ومنشی فض حق صاحب وغیرہ کو اہلِ شورٰی قرار دیا کہ کاروبار مدرسہ حسب رائے اہلِ شورٰی ہوا کرے اور خود بھی اہلِ شورٰی و سرپرست و مہتمم بلا تنخواہ رہے جب چندہ کی زیادہ آمدنی ہونے لگی ،اہلِ شورٰی سے مشورہ کیا گیا کہ دو مدرس چھوٹی کتابیں پڑھانے والے اور مقرر کیے جاویں اور مولوی محمد یعقوب صاحب کو بریلی سے بلا کر مدرس اول کیا جائے اور ایک مدرس فارسی اور ایک قرآن شریف کا مقرر کیا چونکہ یہ کام متعلق دین محمدی کے تھا اس لیے یہ سب مدرس اہلِ فقر رکھے گئے تاکہ کاروبار مدرسہ میں یہ لوگ دل سے توجہ کریں ۔ (تذکرة العابدین ص ٧٠) اسی زمانہ میں یہ مشورہ قرار پایا کہ دیوبند میں جامع مسجد نہیں ہے جامع مسجد ٩ بنائی جائے چنانچہ آپ نے متفق الرائے ہو کر بازار کے نزدیک ایک اونچی جگہ پسند کی اور اس جگہ کھڑے ہو کر دعا بھی مانگی کہ خدا وندا یہاں جامع مسجد بن جاوے مگر اس جگہ لوگوںکے مکان تھے ہر چند تدبیریں کیں کہ یہ جگہ مل جائے مگر کوئی تدبیر پیش نہ آئی کیونکہ جب ان مکان والوں سے کہتے تھے کہ یہ جگہ دے دو تو وہ یہ کہتے تھے کہ اپنے مکان ہم کو دے دو اور یہ جگہ لے لو ،یہ سُن کر خاموش ہوجاتے ٧ پہلے سال میں ٥٨ بیرونی طلبہ میں صرف ٦ طالب علم ایسے تھے جو خود اپنے اخراجات کا تکفل کر سکتے تھے بقیہ ٥٢ طلبہ کے خورد ونوش اور قیام وغیرہ کا تمام تر بار اہلِ دیوبند نے بخندہ پیشانی برداشت کیا ۔سبقت الی الخیرکایہ عمل بالیقین ان لوگوں کو السابقون الاولون کے شرف سے ممتاز کرتاہے(باوجودیکہ ٥٧ء میں ان کی جائیدادیں بھی ضبط کر لی گئی تھیں )۔ ٨ یہ مکان مسجد قاضی کے نزدیک لیا گیا تھا جیسا کہ حضرت مولانا میاں سیّد اصغر حسین صاحب قدس سرہ نے تحریر فرمایا ہے حضرت حاجی محمد عابد صاحب قدس سرہ کی تجویز کہ قومی چندے کے ذریعہ مدرسہ قائم کیا جائے بہت مقبول اور کارگررہی ۔ تاریخ دیوبندمیںہے دارالعلوم دیوبند کی اس مثال نے ملک کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیا۔ اجتماعی اور قومی کاموں کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کا یہ پہلا تخیل تھا ۔''اس نسخہ کیمیا''کا ہاتھ آناتھا کہ جابجا اس کی تقلید میں مدارس جاری ہونے شروع ہوگئے چنانچہ قیام دارالعلوم کے چھ سات ماہ کے بعد سہارنپور میں مظاہرِ علوم اسی اصول پر قائم ہوا۔ آگے چل کر لکھتے ہیں :دارالعلوم کے قیام کے آٹھ نو سال بعد ١٨٧٥ء میں علی گڑھ کالج (مسلم یونیورسٹی )بھی اسی طریقہ پر قائم ہوا۔( ص٣٣٣،ص٣٣٤) ١ اب دیوبند میں متعدد مساجد میں نماز جمعہ ہوتی ہے مگر جامع مسجد یہی کہلاتی ہے اور یہ سب سے بڑی مسجد ہے ۔ حامد میاںغفرلہ