ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
تھے آخر الامر ایک روز حاجی صاحب نے بھی ان سے کہا انہوں نے وہی جواب دیا اس وقت حاجی صاحب نے فرمایا کہ میں نے اپنا مکان اورنشست گاہ تم کو دیا تم جگہ مسجد کو دے دوانہوں نے فوراً دیدی ۔حاجی صاحب نے اپنامکان وبیٹھک ان کو دیکر ارادہ حج بیت اللہ شریف ١٢٨٤ھ کیا اورجوکچھ جائیداد جدی تھی اس کو عزیزوں اور قریبوں میں تقسیم کردیا اور مولوی رفیع الدین صاحب کو مہتمم مدرسہ مقرر کردیا اور آپ برائے حج بیت اللہ روانہ ہوئے اس وقت شہر والوں کو اتنا رنج تھا کہ تحریر نہیں ہو سکتا۔(تذکرة العابدین ص ٧١) صاحبِ تاریخ دیوبند تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد کے زمانہ تعمیر کے ایک اشتہار میں تعمیر مسجد کی تحریک کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ : ''حضرت حاجی محمد عابد حسین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ اس مقام پر جہاں اب جامع مسجد واقع ہے آنحضرت ۖ تشریف فرما ہیں اور آپ کے سامنے ایک طشت رکھاہوا ہے جو دودھ سے بھرا ہوا ہے ۔دا ہنی جانب ایک شخص ہے جو روپیہ لالا کر آنحضرت ۖ کے سامنے انبار لگا رہاہے آپ نے حاجی صاحب سے ارشاد فرمایا کہ:''یہاں مسجد بناناشروع کردو''۔ (تاریخ دیوبند ص ٢٩٨) آگے تحریر فرماتے ہیں (اس بارے میں کہ اتنی بڑی تعمیر کیسے ہو سکے گی)لوگ متحیر تھے ۔آخر ایک جگہ متعین کرکے سب لوگ رات کو جمع ہوئے اور بارگاہ رب العزت میں دُعا کی، لوگوں میں تعمیر مسجد کا ایسا جذبہ پیدا ہوگیا کہ انہوں نے روپے کے علاوہ زیور کپڑے برتن لکڑی اینٹ اور چونا غرض کہ جو جس سے بن پڑا اس نے لاکر رکھ دیا ۔حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ مہتمم تعمیر قرار پائے اور مولانا عبدالخالق تحصیل چندہ پر مامور کیے گئے۔(تاریخ دیوبند ص ٢٩٩) صحن کے اطراف میں قدیم طرز پر مدرسہ اور طلباء کے لیے دالان اورحجرے بنائے گئے ہیں دارالعلوم دیوبند اپنے ابتدائی چند سالوں میں اس جامع مسجد میں بھی رہاہے مگر جب اس کی روز افزوں ترقی کے باعث یہ جگہ ناکافی ثابت ہوئی تودوسری جگہ منتقل کردیا گیا(تاریخ دیوبند ص ٢٩٩)۔ ١٢٩٠ھ ١٨٧٣ء میں دارالعلوم جامع مسجد میں منتقل ہوگیا(تاریخ دیوبند ص ٣٦١)۔جامع مسجد کی تعمیر ١٤٨٣ھ میں شروع ہوئی اور ١٤٨٦ھ میں مکمل ہوگئی تھی حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نے موسس ومہتمم تعمیر کی حیثیت سے مسجد کے شمالی دروازے پر مسجد کے انتظام سے متعلق ایک دستور العمل سنگ سرخ پر کندہ کراکر نصب کرادیا ہے۔چنانچہ اسی کے مطابق نظم و نسق قائم ہے ۔سیّد جمعیت علی صاحب دیوبندی نے چھ ہزار تین سو اشعار پر مشتمل ایک مثنوی لکھی ہے جس میں تمام کیفیاتِ تعمیر دی گئی ہیں ۔اس میں حاجی صاحب کی نسبت یہ شعر ہے پیر جی عاشق علی کے نور عین بانی مسجد ہوئے عابد حسین (تاریخ دیوبند ص٢٩٨) (جاری ہے )