ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
حضرت ابوسفیان کا اسلام : اور ابو سفیان بیان دیتے ہیں صاف صاف سیدھا سیدھا وہ کہتے ہیں حتی اُدخل علیّ الاسلام وانا کارہ اللہ نے اسلام میرے اُوپر داخل کرہی دیا اور میں ناپسند کرتاتھا طبیعت نہیں مان رہی تھی بس حالات ایسے ہو گئے کہ اُس کے سوا چارہ کار کوئی نہیں رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرلوں تواس طرح آخرمیں آکر یہ مسلمان ہوئے تو حق تعالیٰ نے جناب رسول اللہ ۖ کو یہی حکم فرمایا کہ یہ جو غرباہیں اِ ن کوساتھ رکھو اور ان کا ایمان سچا ایمان ہے اور اللہ کے ہاں قیمت اِ ن کی زیادہ ہے درجہ اللہ کے ہاں اِن کا زیادہ ہے ۔ حضرت عمر کی نظر میں حضرت بلال کا درجہ : تو آپ نے سُنا ہوگا حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کہتے تھے ''سیّدنا''یہ ہمارے آقا ہیں بہت بڑا جملہ وہ استعمال کرتے تھے ۔مذاق نہیں اُڑاتے تھے سچ مچ کہتے تھے کیونکہ بلال اسلام لانے میں متقدم تھے تکلیفیں اُٹھائیں اِنھوںنے، اسلام سے وہ نہیں ہٹے ،مضبوط رہے تو لوگوں کے ذہنوں میں اِن کی یہ عظمت تھی۔ ایک اور واقعہ : ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ملنے کے لیے تو حضرت عمر نے انھیں کہا کہ ٹھہرو ابھی بُلائوںگا، کسی کام میں مصروف تھے یا ملاقاتوں میں مصروف تھے، نمبروار بُلا رہے تھے جو بھی صورت تھی بہر حال انھیں بٹھادیا یہ بیٹھے رہے اِن کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ وغیرہ آگئے اِنھوںنے اندر کہلایا اطلاع دلائی تو انھیں فوراً بُلالیا تو بڑافرق ہے دونوں حضرات میں ۔ احساس ِزیاں : اِنھیں بڑا احساس ہوا اِس کا لیکن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ غلطی ہماری ہے ہم اگر اسلام پہلے لاتے تو ہم اُس درجہ میں ہوتے ہم اسلام بعد میں لائیں ہیں لہٰذا ہمیں یہ درجہ ملا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو جو اُس کی اطاعت کریںجو اس کے سامنے جھکیں جو اُس کے نبی کی بات مانیں اُن کا ہی درجہ سب سے بڑا بتلایا ہے ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم تم میںجو تقوٰی والازیادہ ہے وہ اللہ کے ہاں زیادہ مکرم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کا ساتھ نصیب فرمائے۔آمین۔اختتامی دُعائ............................... ٭٭٭