ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
(٧) شہادت عثمان کے بعد حضرت علی مدینہ میں چار ماہ مقیم رہے۔یہ وہ زمانہ ہے کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی جاچکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عرصہ میں تمام نمازیں حضرت علی نے پڑھائی ہوں گی اور جمعوں کے خطبے بھی دیے ہوں گے۔اور اس عرصہ میں حسن بھی جیسا کہ علامہ سیوطی لکھتے ہیں مدینہ میں تھے ، وہ حضرت علی کے کوفہ روانہ ہو جانے کے بعد مدینہ سے بصرہ کے لیے نکلے ہیں لہٰذا اس عرصہ میں انہوں نے حضرت علی ہی کی اقتدا ء میں نمازیں پڑھی ہوں گی اور جمعوں کے خطبے سُنے ہوں گے ۔ (٨) حضرت عثمان جو عمر میں حضرت علی سے بڑے ہیں اوران کی شہادت بھی حضرت علی سے پہلے ہوئی ہے، حسن نے ان سے بھی روایت کی ہے ١٨ اور بقول ذہبی وابن مدینی انہوں نے کئی بار حضرت عثمان کو خطبہ دیتے سنا ہے ١٩ یہ تمام حقائق اس امر کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ علی سے حسن کا لقاء بھی ہوا اور سماع بھی۔ بلوغ سے قبل کی روایت : اگر یہ کہا جائے کہ یہ زمانہ حضرت حسن کے بچپن کا زمانہ تھا اور بچوں کی بات کا کوئی اعتبار نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک بچپن کا سماع معتبر ہے چنانچہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ''بعض لوگ پندرہ سال کو حد سماع مقرر کرتے ہیں ،بعض تیرہ کو لیکن جمہور علماء کے نزدیک جس کا سن تیرہ سال سے بھی کم ہو اُس کا بھی سماع صحیح ہے اور ہمارے نزدیک یہی درست ہے ۔ ٢٠ نیز محدثین اس پر متفق ہیں کہ راوی نے اگرکوئی بات بالغ ہونے سے قبل سنی ہو لیکن اس کی روایت وہ بالغ ہونے کے بعد کرے اور وہ راوی ثقہ ہے تو اس کی روایت معتبر ہوگی ٢١ محدثین کا یہ مسلک دراصل اجماع صحابہ پر بھی مبنی ہے کیونکہ رسول اللہ ۖ کے انتقال کے وقت سہل بن سعد ساعدی کی عمر پندرہ سال تھی ٢٢ ابن ِعباس کی دس سال (اور ایک روایت کے مطابق پندرہ سال) ٢٣ مسلمہ بن مخلد کی دس سال (اور ایک روایت کے مطابق چودہ سال) ٢٤ عبداللہ بن زبیر کی نو سال ٥ ٢ ابوحفص عمر بن سلمہ کی نوسال ٢٦ حسن بن علی کی آٹھ سال ٢٧ نعمان بن بشیر کی آٹھ سال ٢٨ مسور بن مخرمہ کی آٹھ سال ٢٩ اور ابوالطفیل کی سات سال تھی ٣٠ اور ان تمام اصاغر صحابہ کی روایت کو اکابر صحابہ نے قبول کیا ۔ ان حضرات کی مرویات کتب حدیث میںموجود ہیں۔ مزید یہ کہ بخاری میں محمود بن الربیع کی وہ روایت بھی موجود ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ''مجھے وہ کُلِّی یاد ہے جو ١٨ طبقات ٧/١٥٧، تذکرة الحفاظ ١/٧١ ، تہذیب٢/٢٦٤ ١٩ تذکرة الحفاظ ١/٧١،القول ١/٦٠ بحوالہ علل ٢٠ الکفایہ ص٥٤ ٢١ الکفایہ ص ١٣٧ ٢ ٢ الکفایہ ص٥٥ ٢٣ ایضاً ص٥٩ ٤ ٢ ایضاً ص ٥٥ ٥ ٢ الکفایہ ص٥٦ ٦ ٢ ایضاً ص٥٩ ٢٧ ایضاً ص٥٥ ٢٨ ایضاً ص ٥٦ ٢٩ ایضاً ص ٥٧ ٣٠ ایضاً ص ٥٦