ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
المسیب نے عثمان اور علی سے مشافہةروایت کہ ہے۔ ٥١ تاریخ صغیرمیں امام بخاری نے حضرت سعید ابن المسیب کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ''مجھے وہ دن یاد ہے جب عمر نے ممبرپرنعمان بن مقرن کی شہادت کی خبر سنائی'' ١ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سعید ابن المسیب نے حضرت عمر سے بھی مشافہة روایت کی ہے۔علامہ نووی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد بھی سعید کی عمر سے مشافہة روایات کے قائل تھے۔ ٢ علامہ نووی مزید لکھتے ہیں کہ سعید نے عمر ، عثمان اور سعد بن ابی وقاص سے سُنا ۔ ٣ مز ی کہتے ہیں کہ سعید نے خالد بن زید سے بھی روایت کی ہے جو بدری ہیں ۔ ٤ معلوم ہوا کہ قتادہ کی اس بات کا کہ ''سعید نے بھی ہم سے سعد کے سوا کسی بدری سے مشافہة کوئی حدیث بیان نہیں کی''مطلب یہ ہے کہ یوں تو سعید نے دوسرے بدری صحابہ سے روایت کی ہے لیکن قتادہ سے سعید نے جو روایات بیان کی ہیں ،ان میں سعد کے سوا کسی بدری صحابی سے مشافہة کوئی روایت نہیں ۔اسی طرح قتادہ کی اس بات کا کہ'' ہم سے حسن نے کسی بدری سے مشافہة کوئی حدیث بیان نہیں کی ''مطلب یہ لینا بالکل منطقی ہے کہ سعید کی طرح اگرچہ حسن کی روایات بدری صحابہ سے مشافہة ہیں لیکن قتادہ سے انہوں نے جو روایات بیان کی ہیں ،ان میں کسی بدری سے مشافہة کوئی روایت نہیں ۔ امام ترمذی : امام ترمذی حسن عن علی کی اس روایت کے ذکر کے بعد کہ'' رفع القلم عن ثلثة '' الحدیث، لکھتے ہیں کہ ''ولا نعرف للحسن سماعا من علی '' ٥٦ یعنی علی سے حسن کا سماع ہمیں معلو م نہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علی سے حسن کے سماع کے قائل نہیں ۔ لیکن امام ترمذی نے یہ بات دراصل اس لیے کہی ہے کہ حسن مدلس ہیں اورمدلس جب تک کسی روایت میں اپنے شیخ کو ایسے صیغہ سے بیان نہ کردے جو سماع میں صریح ہوتا ہے تو اس کی روایت متصل نہیں ہوتی ٥٧ اور کسی روایت میںکسی صریح صیغہ سے امام ترمذی کو علی سے حسن کا سماع معلو م نہیںہوا ،اسی لیے انہوں نے صاف طورپر یہ کہہ دیا کہ علی ٥١ فخر الحسن ص ٤٩ تا٥١ ٥٢ تاریخ صغیر ص ٣٠، ١٠٥ ٥٣ تہذیب الاسماء ١/٢١٩،٢٢٠ ٥٤ ایضاً ٥٥ فخرالحسن ص ٥٢ ٥٦ جامع ترمذی ١/١٧٠،١٧١،باب ماجاء فیمن لا یجب علیہ الحد۔ ٥٧ تقریب النووی ص ١٤٣، ١٤٤ ،حدیث کی اصطلاح میں مدلس اسے کہتے ہیں جو اپنے معاصر سے کوئی ایسی روایت کرے جو اس نے اس سے نہیں سنی لیکن الفاظ ایسے استعمال کرے جس سے سماع کا وہم ہوتا ہو۔''قال فلان''(فلاں نے کہا) یا ''عن فلان''(فلاں سے) وغیرہ (ایضاً ص ١٣٩،١٤٠)