ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
موجود ہیںجن سے حسن کا علی سے اتصال ثابت ہوتا ہو۔ علی سے حسن کی معنعن روایات : علامہ سیوطی نے اتحاف الفرقہ ٦٥ میں اور مولانا فخرالدین دہلوی نے رسالہ فخرالحسن میں ٦٦ امام احمد، ترمذی، نسائی ، حاکم ، دارقطنی ، طحاوی ، دیلمی ،ابونعیم اور خطیب بغدادی کے حوالوں سے ایسی متعدد احادیث ذکر کی ہیں جن میں حسن علی سے روایت کرتے ہیں لیکن یہ تمام روایات معنعن ہیں جن میں ''حسن عن علی '' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ہم ان میں سے صرف ایک حدیث کو نمونہ کے لیے پیش کرتے ہیں : جامع ترمذی میں ہے ''عن الحسن عن علی عن رسول اللّٰہ ۖ قال '' رفع القلم عن ثلثةعن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یشب وعن المعتوہ حتی یعقل '' ٦٧ یعنی تین قسم کے لوگوں سے مواخذہ اُٹھا لیا گیا ہے، سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو، بچے سے یہاں تک کہ جوان ہو اور مجنون سے یہاں تک کہ وہ صاحبِ عقل ہو۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے ۔الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ امام احمد ،نسائی ، حاکم اور ضیاء مقدسی نے بھی اس کی تخریج کی ہے اور حاکم اور ضیاء مقدسی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ٦٨ حدیث معنعن کے سلسلہ میں دو قاعدے : معنعن احادیث کے بار ے میں دو قاعدے ذہن میں رہنے چاہئیں ،ایک یہ کہ اگر وہ تدلیس کے شبہہ سے خالی ہو اور لقاء کا امکان ہوتو جمہور محدثین کے نزدیک وہ متصل ہوتی ہے ٦٩ دوسرے یہ کہ اگر کوئی ثقہ محدث کسی معنعن روایت کی تصحیح کردے تو تدلیس کا شبہہ مرتفع ہو جاتاہے۔ اورجب ''رفع القلم ''الحدیث کی روایت کی جو معنعن ہے حاکم اور ضیاء مقدسی نے تصحیح کردی تو مذکورہ دو اصولوں کے مطابق تدلیس کا شبہہ بھی ختم ہوگیا اور یہ متصل بھی ہوگئی ۔اور جب اس حدیث کو متصل مان لیا گیا تو علی سے حسن کا سماع ثابت ہوگیا ۔ علی کے ساتھ حسن کے اتصال کو ثابت کرنے کی یہ صورت اگرچہ روایات اور اصول پرمبنی ہے مگر بہرحال استدلالی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر ایک صحیح روایت ایسی بھی موجود ہے جو علی سے حسن کے سماع میں صریح ہے۔ مسند ابو یعلی کی ایک صحیح اور صریح روایت : مسند ابویعلی میں ہے ''حدثنا حوثرة بن الاشرس قال اخبرنا عقبة بن ابی الصہباء الباھلی قال ٦٥ اتحاف ص ٧٧،٧٨ ٦٦ فخرالحسن ص ٣١،٣٢ ٦٧ ترمذی ١/١٧٠،١٧١ باب فیمن لا یجب علیہ الحد ٦٨ اتحاف ص ٧٦، ٧٧، فخرالحسن ٣١،٣٢ ٦٩ تقریب نووی ص ١٣٢