ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
حضرت مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ مولانا محمد صاحب کا تعارف کراوتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ''مولانا محمد صاحب کوٹ بادل خاں ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے بڑے عالم تھے۔ حضرت مولانا مظہر صاحب نانوتوی بانی ٔ مظاہر العلوم سے تلمذ تھااور مولانا عبدالحق صاحب حقانی کے ہم سبق تھے ، بڑی عاشقانہ اور درد مند طبیعت پائی تھی ابتدا ء میں عشقِ مجازی میں گرفتار ہو گئے اور اس کی وجہ سے بڑی تکلیفیں برداشت کیں ، پھر جاذبۂ توفیق ِالٰہی نے محبوب ِحقیقی کی طلب وعشق کی طرف متوجہ کیا، حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوگئے ۔حضرت نے ان کو ارشاد فرمایا تھا کہ آپ وعظ ہی کہتے پھریں یہی آپ کا وظیفہ ہے ،مولانا وعظ کے لیے دیوانہ وار پھرتے تھے ،آواز میں اللہ تعالیٰ نے اتنی کشش دی تھی کہ جو بھی آپ سے وعظ یا کوئی شعر سن لیتا گرویدہ ہو جاتا ،اکثر وعظ سننے والے تہجد گزار ہوجاتے ،بڑے بڑے ڈاکو اور چور آپ کے ہاتھ پر تائب ہوئے۔ حضرت فرماتے تھے کہ جب ذکر کرنے بیٹھتے تو پہلے بڑے درد سے یہ شعر پڑھتے اور دل کھینچ لیتے ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبی است پھرتھوڑا ذکر کرتے ،پھر یہ شعر پڑھتے اور خوب روتے۔ مولانا مفتی فقیر اللہ صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ضلع لاہور میں میرا گزر ایک جھونپڑے کے پاس سے ہوا جو بالکل جنگل میںتھا۔سنتا ہوں کہ کوئی عورت جھونپڑے کے اندر بیٹھی ذکر بالجہر کر رہی ہے،مگر کچھ زیادہ جہر سے نہیں ،میں وہاں ٹھہر گیا۔ پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس کی صحبت سے یہ بات حاصل ہو گئی ۔انھوںنے کہا کہ یہاں سے ایک بزرگ سفید ریش گزرے تھے اُن کا نام محمد تھا ،ہم ان سے بیعت ہو گئے ،ہماری مستورات بھی ذاکرہ اور تہجد گزار ہیں حلال وحرام پہچانتی ہیں،میں سمجھ گیا کہ یہ میرے استاد حضرت مولانا محمد صاحب فاروقی ہیں ۔١٣٢٠ھ(١٩٠٢ئ) میں وفات پائی '' ١ شیخ شبلی اور سبزی فروش : حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''شبلی رحمة اللہ علیہ کی حکایت ہے کہ ایک سبزی فروش ،سبزی فروخت کرتا پھر رہا تھا اوریہ آواز لگا رہا ١ حاشیہ تزکیہ واحسان ص ١٤٦