ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
سے حسن کا سماع ہمیں معلوم نہیں ۔ لیکن اس طرح امام ترمذی نے اپنے حد علم کا اظہار کیا ہے اور اگر امام ترمذی کو کوئی ایسی روایت صحیح سند کے ساتھ نہیں پہنچی جس سے علی سے حسن کا صراحتاً سماع معلوم ہوتو یہ ضروری نہیں کہ کوئی ایسی روایت موجود ہی نہ ہو۔مسند ابی یعلی کی ایک صحیح روایت کا ذکر آئندہ صفحات میں آرہا ہے جو علی سے حسن کے سماع میں صریح ہے۔ ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ صاحب : ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی علی کے ساتھ حسن کے اتصال کے منکر ہیں لیکن ہم ان پر کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جہاں تک ابن تیمیہ کا تعلق ہے رسالہ فخرالحسن کے آخر میں ان کا تفصیلی رد موجود ہے اور جہاں تک شاہ ولی اللہ صاحب کا تعلق ہے انہوںنے قرہ العینین میں اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا رد ہی رسالہ فخرالحسن کی تالیف کا اصل مقصد ہے اور یہ رد تفصیل کے ساتھ اس میں موجود ہے۔ ٥٨ محدثین میں سے جن حضرات نے اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ اپنی رائے کا اظہارنہیں کیا اور صرف ان کے اشارات سے ان کا رجحان سمجھ میں آتا ہے ہم ان کی تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہتے کیونکہ اشارات کلام سے کوئی رجحان سمجھ کر اس کا رد کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ مذکورہ صفحات میں جن منکرین ِاتصال کا ذکر کیا گیاان میں سے ابن مدینی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ علی جب مدینہ میں تھے تو اس وقت حسن بھی مدینہ میں تھے ٥٩ ابوزرعہ اقرارکرتے ہیں کہ حسن نے علی کو دیکھا ہے ٦٠ ابن تیمیہ ٦١ اور شاہ ولی اللہ ٦٢ بھی یہ مانتے ہیں کہ حسن مدینہ میں پیدا ہوئے اورشہادتِ عثمان تک علی اور حسن دونوں مدینہ میںتھے تو ذ ہن میں قدرتی طورپر یہ سوال اُبھرتا ہے کہ پھر یہ حضرات اتصال ،رویت ،لقاء یا سماع کے منکر کیوں ہیں؟ انکار کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں معلوم ہوتی کہ انہیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی جو ان کے معیارِ صحت پر پوری بھی اُترتی اور جس سے صراحةً لقاء یا سماع ثابت ہوتا ،اور صرف امکان کو ان حضرات نے اس مقصد کے لیے کافی نہ سمجھا۔چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب نے تو صراحةً کہہ بھی دیا کہ ''درمطالب نقلیہ وقوع را ذکر می باید کرد نہ امکان را ٦٣ یعنی منقول امور میں وقوع کاذکر کرنا چاہیے نہ کہ امکان کا۔اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں''ودراتصال برمحض معاصرت اکتفا کردن امرے است کہ سلامت ذہن ازان ابا میکند ٦٤ یعنی اتصال میں صرف معاصرت پر اکتفا کرنا ایسی بات ہے کہ ذہن کی سلامتی اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔اس لیے اس مرحلہ پر ہمیں اس کا جائزہ لینا ہے کہ کیا ایسی روایات ٥٨ مولانا فخرالدین کے رسالہ فخرالدین کا ایڈٹ شدہ عربی متن جرنل کی آئندہ اشاعت میں ملاحظہ فرمائیے ۔یہ مضمون دراصل اسی رسالہ کا مقدمہ ہے۔ ٥٩ تہذیب ٢/٢٦٧ ٦٠ ایضاً ٢/٢٦٦ ٦١ منہاج السنة ٤/١٥٦ ٦٢ قرة ص ٣٠١ ٦٣ ایضاً ص ٣٠١ ٦٤ ایضاً ص ٣٠٣