ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
محدثین کا ایک اور مسلمہ اصول : محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ ثقہ مدلس اگر کسی روایت میں اپنے شیخ کو کسی ایسے صیغہ سے بتا دے جو سماع میں صریح ہوتا ہے ، مثلاً ''سمعت''یا حدثنا''تو اس شیخ سے اس کی تمام مرویات مقبول اورمتصل ہوتی ہیں ٧٨ خود بخاری میں قتادہ اور سفیانین سے متعدد مرسل احادیث موجود ہیں لیکن چونکہ ان حضرات کا اپنے مروی عنہم سے لقاء اور سماع دوسری روایات سے صریح طورپر ثابت ہے اس لیے ان مرسل احادیث ،کو بھی متصل کا حکم دیا جاتا ہے ٧٩ حضرت حسن اس میں شک نہیں کہ مدلس اور کثیر الارسال ہیں ، لیکن ان کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں لہٰذا جب مسند ابی یعلی کی ایک صحیح روایت میں انہوں نے''سمعت''کے لفظ سے اپنے شیخ ،علی کی تصریح کردی تومذکورہ قاعدے کے مطابق ان سے ان کی تمام معنعن اور مرسل روایات متصل کے حکم میں ہو گئیں ۔ ایک اُلجھن اور اس کا حل : جب درایت اور روایت دونوں کی رُو سے علی کے ساتھ حسن کا اتصال ثابت ہے اور بہت سی معنعن روایات بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن ،علی سے بکثرت روایت کرتے ہیں توایک الجھن یہ پیدا ہوتی ہے کہ آخر حسن نے علی سے اپنی روایات میں ایسے صیغے کیوں بکثرت استعمال نہ کیے جو سماع میں صریح ہوتے ہیں ۔کیونکہ اگر انہوں نے ا س طرح کے صیغے استعمال کیے ہوتے تو اتصال یا عدم اتصال کا مسئلہ ہی کھڑا نہ ہوتا۔ اس الجھن کا حل ہمیں حضرت حسن کے اس جواب سے ملتا ہے جوانہوںنے اپنے ایک عزیز اور معتمد علیہ شاگرد یونس بن عبید کو دیا تھا کہ میں جب ارسال کرتے ہوئے یہ کہتا ہوں کہ رسول اللہ ۖ نے یہ فرمایا ،تو وہ روایت علی سے ہوتی ہے لیکن زمانہ ایسا ہے کہ میں ان کا نام نہیں لے سکتا ٨٠ ملا علی قاری بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ علی کا نام اس لیے حذف کردیا کرتے تھے کہ کہیں حجاج کی طرف سے کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ٨١ گزشتہ اوراق میں جو کچھ عرض کیا گیا اس کے نتیجہ کے طورپر اگر یہ کہا جائے تو اس کے تسلیم کرنے میں ادنیٰ تامل بھی نہ ہونا چاہیے کہ علی سے حسن کا اتصال ثابت ہے روایتاً بھی اور درایتاً بھی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ ٭٭٭٭٭ ٧٨ تقریب نوری ص١٤٤ ٧٩ ایضاً ٨٠ فخر الحسن ص ٢٤ بحوالہ تہذیب مزی ٨١ فخر الحسن ص ٢٥،٢٦ ۔ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ حجاج کی طرف سے وہ بڑے ہولناک واقعات سے دوچار ہوئے لیکن اللہ نے انہیں اس کے شر سے محفوظ رکھا ۔حجاج جب کبھی ان کی مجلس میں آتا تھا تو وہ اس کے لیے کھڑے نہ ہوتے تھے بلکہ جگہ دے دیتے تھے اور وہ ان کے پہلو میں بیٹھ جاتا تھا اور حسن اپناسلسلہ کلام جاری رکھتے تھے (شذرات ١/١٣٧) ۔