ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
خباب رضی اللہ عنہ کو انگاروں پر لٹا دیا حتی کہ اُن کی کمر کی کھال جل گئی اور چربی نکل آئی تو اِ ن حضرات کو وہ مشرکین کہتے ہیں کہ اِ نہیں ذرا پیچھے کردیں ذرا ثانوی درجہ دیدیں اِ نھیں، تو پھر یہ ہوگا کہ ہم اسلام میں داخل ہوجائیں گے تو رسول اللہ ۖ اس پر ذرا غور فرمانے لگے فحدَّث نفسَہ اپنے دل میں سوچتے رہے ۔ اللہ کی طرف سے مطالبہ مسترد کردیا گیا : فانزل اللّٰہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اُتاری ولا تطردالذین یدعون ربھم بالغدات والعشی یریدون وجہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس سے مت جھڑکومت ہٹائو کہ جو اللہ تعالیٰ کو صبح اور شام یاد کرتے ہیں ایمان کے سچے ہیں اللہ کی نظر میں وہی اچھے ہیں وہی عزیز ہیں ،چنانچہ رسول اللہ ۖ نے جو غور شروع کیا تھا اُسے ترک کردیا پھر اُس پر آپ نے غور نہیں فرمایا نہ اُس طرح عمل کیا آپ نے ۔ آپ کے گرد ضعفاء ہوا کرتے تھے : تو آقائے نامدار ۖ کے گرد جو لوگ تھے وہ ضعفاء تھے ۔یہ ہِرَقَلْ جو بادشاہ تھا (رُوم کا) اس کے پاس جب آپ نے ٦ھ میں (اسلام میں داخل ہونے کے لیے) والہ نامہ بھیجا ہے چھ سال یہ ہوئے اور تیرہ سال وہ ہوئے گویا نبوت کے ١٩سال بعد آپ نے والہ نامہ بھیجا ہے اور ہرقل کے پاس جب وہ پہنچا ہے تو اس نے ابوسفیان کو جو وہاں (شام) گئے ہوئے تھے تجارتی قافلہ لے کر بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ یہ بتائوکہ اشراف الناس اتبعوہ ام ضعفاء ھم بڑے بڑے لوگ اُن کے پیروکار ہیں یا کمزور ضعفاء پیروکار ہیں تو اِ نہوں نے جواب دیا کہ بل ضعفاء ھم جو کمزور لوگ ہیں وہ پیروکار ہیں۔ ایک سیاسی وجہ جو ہدایت میں رُکاوٹ بن گئی : اگر غور کیا جائے تو مکہ مکرمہ میں اسلام جو نہیں پھیل سکا تو اُس کی ایک وجہ واضح جو ہے سیاسی بھی تھی کہ وہ اتنے بڑے بڑے لوگ تھے کہ پورے عرب میں اُن کا احترام کیا جاتا تھا اُن کی بات چلتی تھی وہ گویاعرب کا دارالخلافہ جیسا تھا اگرچہ وہاں کوئی ایک بادشاہ تو نہیں تھا لیکن جووہ طے کر لیتے تھے وہ سب مانتے تھے ۔قریش کی بات چلتی تھی اور قریش میں چیدہ چیدہ لوگ تھے وہ جو طے کرلیں وہ سب کے لیے ہو جاتا تھا تو مقام کی بُزرگی عظمت ،خاندان کی بڑائی دونوں چیزیں اُنھیں حاصل تھیں اورکئی سردار تھے وہ یہ نہیں گوارا کر سکتے تھے کہ چھوٹے لوگ ہمارے برابرآکر بیٹھ جائیں ۔ پیغامِ مساوات : اور اسلام نے ہی پیغام دیا ہے مساوات کا ،نماز میں جب کھڑے ہوتے ہیں اگر بادشاہ کھڑا ہے تو اُ س کے