ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
اس کی پیشانی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ وہ بالکل تابع فرمان بن گیا۔ حضور ۖ نے اس کو حکم دیا جو کام اپنے مالک کا وہ پہلے کیا کرتا تھا وہ اب بھی کیا کرے۔ صحابہ کرام نے یہ منظر دیکھا تو عرض پیرا ہوئے یا رسول اللہ ۖ ! یہ جانور ہے اسے کوئی سمجھ نہیں ہے۔ اس نے آپ ۖ کو سجدہ کیا ہے۔ ہم تو عقل و فہم کے مالک ہیں ہمارا زیادہ حق ہے کہ حضور ۖ کو سجدہ کریں۔ رحمت عالم ۖ نے فرمایا کہ کسی انسان کے لئے درست نہیں کہ کسی انسان کو سجدہ کرے۔ اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، کیونکہ خاوند کا حق عورت پر سب سے زیادہ ہے۔(٧٩) اسی طرح صحیح سند سے یعلی بن مرہ ا لثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ! انہوں نے کہا ہم نبی کریم ۖ کے ہمراہ شریک سفر تھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر اس کے مالک پانی کے مشکیزے لاد کر لایا کرتے تھے۔ جب اس اونٹ نے نبی کریم ۖ کو دیکھا تو بڑ بڑایا اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر رکھ دیا۔ حضور ۖ رک گئے، پوچھا اس کا مالک کون ہے؟ وہ حاضر ہوگیا۔ حضور ۖ نے فرمایا یہ اونٹ مجھے فروختکردو۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بطور ہدیہ حضور کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ یہ اس خاندان کا اونٹ ہے جن کے پاس اس کے علاوہ کسب معاش کا کوئی ذریعہ نہیں۔ حضور ۖ نے فرمایا: اگر یہ بات ہے تو سنو تمہارے اونٹ نے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم کھلاتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔ کام تھوڑا لے اور چارہ زیادہ ڈال۔(٨٠) حضرت جابر سے روایت ہے کہ ! ایک اونٹ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، جب وہ حضور ۖ سے قریب ہوا تو سجدہ میںگرپڑا۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا اے لوگو! اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ چند انصاری جوان گویا ہوئے یہ ہمارا اونٹ ہے۔ حضور ۖ نے پوچھا اسے کیا تکلیف ہے؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ بیس سال تک ہم اس پر پانی کے مشکیزے لاد کر لاتے رہے ہیں اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے، ہمارا ارادہ ہے ہم اس کو ذبح کر دیں۔ رحمت عالم نے فرمایا کیا تم مجھے یہ اونٹ فروخت نہیں کر دیتے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ اونٹ حضور ۖ کا ہے۔ حضور ۖ نے فرمایا اس کے