ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
رسم تھی کہ زندہ جانور کا کوئی عضو کاٹ لیتے مثلاً دنبہ کی چکی، اونٹ کا کوھان یا ایک پائوں اور اسے پکا کر کھالیا کرتے تھے۔(٢٤)عربوں میں ایک عادت یہ تھی وہ جانور کو ذبح کرتے وقت بہت تکلیف دیتے تھے کبھی کبھار چھری سے ذبح کرنے کے علاوہ اس کی گردن پر بھاری پتھر یا لکڑی مارکر ہلاک کرکے استعمال کرتے جس سے جانور کو بہت تکلیف ہوتی اور تڑپ تڑپ کر جان دیتا تھا۔(٢٥) جانوروں کے منہ پر بطور علامت کے داغ لگایا جاتا تھا۔(٢٦) جانوروں کو باہم لڑاتے تھے یہاں تک کہ جانور زخمی یا معذور ہو جاتے تھے۔(٢٧) پرندوں کو پکڑنے(٢٨) اور ان کے انڈے نکال لینے کا بھی رواج تھا۔(٢٩) عربوں میں بدعقیدگی کی بنا پر رواج تھا کہ اونٹ کے گلے میں تانت کا قلادہ یا ہار ڈالا کرتے تھے۔(٣٠) غرض کہ اہلِ عرب وہ قوم تھے جو لڑکیوں کو زندہ درگور کیا کرتیتھے، بھلا ان کی نگاہ میں جانور کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ آپ ۖ کی آمد سے پہلے روئے زمین کے چپے چپے پر ظلم و جور کا قانون تھا، عدل ناپید تھا۔ بقول علامہ دمیری گدھ اور شترمرغ کا فرق مٹنے لگا، بجھو زہریلے سانپ کے منہ لگنے لگا، دودھ چھٹے بچے حیوانوں کی برابری کرنے لگے، مچھلی اور گوہ کو برابر سمجھا جانے لگا، ہر ایک نے بجو کے اخلاق اپنالئے، مقتدائوں نے چیتے کی کھال اوڑھ لی، برائیوں کو کبوتر کے طوق کی طرح گردن میں ڈال لیا، بڑوں نے یہ سمجھ لیا وہ خود قطا (پرندہ) سے زیادہ سچے اور ان کے چھوٹے فاختہ (پرندہ) سے زیادہ خطاکار ہیں، تجربہ کار بوڑھا دو مشکیزوں والی عورت ثابت ہونے لگا، حاذق دانا دیہاتی معلوم ہونے لگا، عاقل اشقر (پرندہ) کی طرح حیران اور طالب علم حباری (پرندہ) کی طرح سرگرداں نظر آنے لگا، کہنے والا کہہ رہا تھا جنگلی گدھا مل گیا تو سارا شکار مل گیا، حق کا متلاشی سیٹی بجانے والے پرندے کی طرح بار بار کہہ رہا تھا خاموش رہو خاموش رہو۔(٣١) اتنے میں صدائے بازگشت گونجتی ہے۔ قولوا لا الہٰ الا اللّٰہ تفلحو کہدو اللہ ایک ہے کامیاب ہو جائو گے۔ ایک شاعر کے الفاظ میں اک مہر جہاں تاب ابھرتا ہے حرم سے اب جھوٹے خدا اپنے چراغوں کو مٹائیں اس صدا پر انس و جن جمادات و نباتات سب ہی لبیک کہتے ہیں، پھر مدینہ کی گھاٹیوں سے کچھ اس طرح استقبال ہوتا ہے ! طلع البدر علینا ـ من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا ـ مادعیٰ للّٰہ داع