ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
تدوین انفرادی محنت کے نتیجہ میں وجود پذیر ہوئی ہے جبکہ فقہ حنفی کی تدوین شورائی طورپر ہوئی ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ شورائی طریقہ سے جو فقہ مدون ہوئی ہے اس میں جتنی جامعیت وکاملیت ہوگی او ر اس میں جتنا حق وصواب کا پہلو غالب ہوگا انفرادی فقہ میں وہ شا ن پیدا نہیں ہو سکتی چنانچہ امام ابوحنیفہ نے اپنی سربراہی میں اپنے ہزاروں شاگردوں میںسے چالیس قابل ترین شاگرد منتخب کرکے ان کی مجلس شورٰی قائم کی،شورٰی قائم کرکے خود امام اعظم اور مجلس شورٰی نے طہارت سے لے کر وراثت تک دین کے تمام مسائل پر اجتماعی غور و فکر کرکے ان کو فقہ حنفی کی شکل میں مدون کیا پھر مجلس شورٰی اور اس کے بعد کے فقہاء نے زندگی میں جن جن مسائل کا پیش آنا ممکن تھا امکانی حد تک ان مسائل کی صورتیں سوچ سوچ کر تقریباًپونے بارہ لاکھ مسائل پیشگی طورپر حل کر دیے ہیں (بنا یہ علی الھدایہ ص٢٢ج١) اس کی نظیر موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے جدید مسئلہ حل النظیر علی النظیر کے فطرتی، عقلی اور شرعی قانون کے تحت آسانی سے حل ہوجاتا ہے او ر اگر نظیر موجود نہ ہوتو جدید مسائل حل کرنے کے جو امام اعظم ابو حنیفہ نے اور اُن کی شوریٰ نے اصول وضع کر دیے ہیں اُن اصولوں کے تحت اس جدید مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے ۔لیکن حلِ مسائل کی مؤخر الذکر دو صورتوں میں اجتہاد ی صلاحیت کی کمی اوروحدتِ اُمّت کے پیشِ نظر انفردی اجتہاد کی بجائے اجتماعی و شورائی طریقہ اجتہاد اختیار کیا جائے اور اجتہاد کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے اُمّت محمدیہ کو اجتہاد اور اہل اجتہاد عطا کر دیے ہیں جو جدید پیش آمدہ مسائل حل کرتے رہیں گے تو اجتہاد و مجتہدین کی بدولت دین ِاسلام کامل ومکمل ہوا اور چونکہ مجتہدین غیر معصوم ہوتے ہیں ان کے اجتہادمیں صواب و خطا کے دونوں احتما ل موجود ہوتے ہیں اس لیے نبی پاک ۖ نے اس بارے میں تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا فان اصاب فلہ اجران وان اخطأ فلہ اجرواحد ا گر مجتہد کا اجتہاد درست ہوا تو اس کو دواجرملیں گے اور اگراجتہاد غلط ہواتو ایک اجر پھر بھی مل جائیگا (بخاری )۔ اسی نسبت سے دونوں مجتہدین کے مقلدین کو بھی انشاء اللہ العزیز ضرور اجر ملے گا بشرطیکہ مجتہد صحیح معنوں میں مجتہد ہو یعنی اس میں پورے طورپر اجتہاد کی صلاحیت ہو اور مقلد کی تقلید کی بنیاد حق پرستی ہو محض خواہش پرستی اور نفس پرستی نہ ہو۔ (جاری ہے)