ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
باب ا ول قسط : ١٧ تحریکِ احمدیت (برطانوی یہودی گٹھ جوڑ) محمد احمد المہدی سوڈانی کو برطانوی فوجیں کبھی بھی نیچا نہ دکھا سکیں ۔ دس سال کے عرصے کے بعد کچنر نے ١٨٩٦ء میں سوڈان کو سامراجی دائرہ اختیار میں زبردستی لانے کے لیے فوجی مہمات شروع کیں ۔ ایک سال کے بعد مہدی کے خلیفہ کو بڑی خونریزی کے بعد شکست ہوئی اور وہ ایک سال بعد مارے گئے ۔کچنرنے مہدی کا مقبرہ تباہ کردیا ۔ ان کی ہڈیاں دریائے نیل میں پھینک دی گئیں اور یہ تجویز ہواکہ ان کی کھوپڑی رائل کالج آف سرجنز کو بھجوائی جائے جہاں اس کی نپولین کی آنتوں کے ساتھ نمائش کی جاسکے ۔بعد ازاں وادی حلفہ میں یہ کھوپڑی رات کے وقت خفیہ طور پر دفن کر دی گئی۔ مہدی کی سوڈان میں جنگ آزادی نے عرب اور شام میں سنگین خطرے بھڑکا دئیے ۔ مسلمانانِ ہند نے بھی برطانوی فوجوں کی ذلت آمیز شکستوں پر اطمینان کا سانس لیا ۔ انہوں نے مہدی سوڈانی کو عزت و احترام دیا ۔ انہیں خطوط صفحہ نمبر 55 کی عبارت بھیجے اور قوموں کے نجات دہندہ کا درجہ دیا۔ ہندوستان میں اُنہیں یقین پورا پایا جاتا تھا کہ مہدی سوڈانی افریقہ کو فتح کرنے کے بعد انڈیا بھی فتح کریں گے اور غیر ملکی شکنجوں سے مسلمانوں کو آزاد کرائیں گے۔ ١ ١ اے ایگمن ہیک ۔دی جزنر۔میجر جرنل سی ۔ جی گولڈن ۔سی ۔ بی الخرطوم ۔کیگن پال ٹرونج اینڈ کمپنی لند ن١٨٨٥ء ۔صفحہ نمبر ٤٤ جب مہدی سوڈانی کی تحریک پورے زوروں پر تھی، مرزاقادیانی جہاد کی مذمت اور برطانوی سامراج کے روشن ترین خاکے تیار کرکے مذہبی مواد کی بھاری مقدار افریقہ کو بھجوا رہا تھا ۔ ٢ اپنی کتاب ''حقیقت المہدی ''میں اس نے جہادی اور خونی مہدی کی سخت مذمت کی اور دعوٰ ی کیا کہ پچھلے بیس سالوں سے (١٨٧٩۔٩٩ ١٨ئ)وہ تصورجہاد کے خلاف پرچار کر رہا ہے۔ ایک خونی مہدی اور مسیح کی آمد کے نظریئے اور جہاد مخالف لٹریچر کی عرب ممالک خصو صاً ترکی ،شام ، کابل وغیرہ میں تقسیم جاری رکھی ۔ اپنی کتاب کے ساتھ عربی اور فارسی میں ایک اٹھارہ صفحات کا ضمیمہ منسلک کرکے اس نے عرب ممالک کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اس کی مہدویت کے دعوٰی کو تسلیم کر لیں اور جہاد کے نام پر جنگیں بند کردیں اور برطانوی حکومت کے بارے میں اپنے دلوں میں گہرا احترام پیدا کریں ۔ایک دوسری کتاب ''ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں تحفہ ''میں آپ ذکر کرتے ہیں ۔ ''والد صاحب مرحوم کے انتقال کے بعد یہ عاجز دنیا کے مشغلوں سے بالکل علیحداہوکر خدا تعالی کی طرف مشغول ہوا اور مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلادِاسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریز ہم مسلمانوں کی محسن ہے ، لہٰذا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اوردعا گو رہے اوریہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی فارسی عربی میں تالیف کرکے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں یہاں تک کہ اسلام کے دومقد س شہروں مکہ اور مدینہ میںبھی شائع کردیں ۔اور روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلاد ِشام اور مصر اور کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کردی جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلیظ خیالات چھوڑ دئیے جو نافہم ملائوں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے ۔یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میںآئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکتا۔ ٣ کیا اپنی جیب سے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے برطانوی حمایت میںلٹریچر چھپوانے میں کوئی مقصد کارفرما ہے؟ کیا احمدی اس پر روشنی ڈالیں گے؟ یہ ہزاروں روپے (جن کی آج وقعت کروڑوں روپے بنتی ہے )کہاں سے آئے ؟ ١٨٩٨ء