ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
دُنیا کی حرص و طمع ( حضرت مولانا ابوبکر غازی پوری،انڈیا ) قرآن و حدیث کے مطالعہ سے یہ بات واشگاف ہوتی ہے کہ دُنیا کی طلب اور اس کی حرص اتنی کہ انسان کو آخرت سے غافل کردے اور اس کو دُنیا کا غلام بنا دے بڑی مذمدم اور بُری چیز ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام دُنیا سے بالکل بے تعلق ہونے کی دعوت نہیں دیتا بلکہ اس کی تعلیم تو یہ ہے کہ انتشروا فی الارض وابتغوامن فضل اللّٰہ ۔ زمین میں پھرو اور اللہ کے فضل ونعمت کو حاصل کرو۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہے ۔یہ انفاق بلا کسبِ مال کے کیسے ہو سکتا ہے ؟ فقرائ،مساکین ، یتامیٰ اور بے کسوں اور لاچاروں کی امداد و اعانت بہترین عمل ہے اس کے لیے ضرورت ہے کہ انسان کے پاس پیسہ ہو ۔اس لیے جائز طریقہ پر مال حاصل کرنا ضروری ہے ۔ قرآن واحادیث میں ہمیں اس کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میں خود صحابہ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک جماعت تھی جس کا شمار اونچے درجہ کے مالداروں میں ہوتا تھا ،حضرت عثمان عرب کے مشہورتاجر تھے ،حضرت ابوبکر کی ابتدائی زندگی میں امیرانہ جاہ وشکوہ تھا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پاس جو دولت تھی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کو اَسّی اَسّی ہزار درہم ملے تھے ۔ (جامع بیان العلم ص١٢٠ ج٢) اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بیوی کے حصہ میں تراسی ہزار روپیہ آیا تھا ۔حضرت زبیر عرب کے مالدار ترین آدمی تھے، ان کے پاس صرف غلاموں کی تعداد ایک ہزار تھی ۔ (ایضاً) حضرت عبداللہ بن مسعو د کا جب انتقال ہوا تو ان کے پاس ستر ہزار درہم تھے ۔ اسی طرح تابعین میں ایک بڑا طبقہ مالداروں کا تھا ۔ ائمہ میں حضرت امام ابو حنیفہ کی ثروت ومالداری زبان زد عوام ہے ۔فقیہ مصر امام لیث زبردست تاجر تھے ۔حضرت عبداللہ بن مبارک کا لقب ہی ''التاجر السفار ''پڑگیا تھا ۔حضرت امام وکیع ایک لاکھ سے کاروبار کیا کرتے تھے ۔ غرض صحابہ سے لے کر تابعین اور تبع تابعین تک جو خیر القرون کا زمانہ تھا اور دین کاگھر گھر چرچا تھا اور عہد صفحہ نمبر 24 کی عبارت نبوت سے قرب تھا ۔ہر شخص کے دل میں دین کا سودا تھا اس و قت بھی کسی نے مال و دولت کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا ، اور دُنیا سے انقطاع کی دعوت نہیں دی اور بلاوجہ فقروفاقہ کی زندگی کو اختیارنہیں کیا ۔خود آنحضور اکرم ۖ نے فقروفاقہ سے پناہ طلب کی ہے اور اُمّت کو اس کی تعلیم دی ہے آپ ۖدُعا فرماتے تھے :