ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
کے خلاف گواہی دینے کی ضرور ت پڑے یا اس کے جسم میںکوئی بیماری ہو اور علاج کی غرض سے طبیب کو دکھلاناپڑے تواس کی گنجائش ہے''۔(٢٢٧١٤) فی الجملہ جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ چہرہ کا پردہ واجب ہے (احکام القرآن )۔ رہی یہ حدیث کہ ''بیشک جب عورت بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے لیے سوائے اس عضو اور اس عضو کے کسی اور عضو کا دکھائی دینا ٹھیک نہیں ہے اور آپ ۖ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ فرمایا ۔''سو یہ حدیث ضعیف ہے اس سے استدلال درست نہیں۔ میری مسلمان بہن ! اسلامی پردہ کے لیے آٹھ شرطیں ہیں جن کا جاننا اور انہیں یاد رکھنا آپ کے لیے ضروری ہے : (١)پہلی شرط : بغیر کسی استثنا کے پورے بدن کو چھپائے، اس لیے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایاکہ عورت مکمل پردہ ہے ۔''(راوہ الترمذی ) آج کل بعض خواتین میں بعض اعضاء کھلا رکھنے کی جو عادت ہے مثلاً چہرہ ، ہتھیلیاں ،کلائیاں اور دونوں پاؤں کھلا رکھتی ہیں وہ قرآن وحدیث کے واضح تصریحات کے خلاف ہے۔ (٢) دوسری شرط : پردہ بذاتِ خود بھی سادہ اور باوقار ہو ،پُر زینت نہ ہو او ر جاذبِ نظر رنگوں سے مزین نہ ہو کہ نامحرم مردوں کی نظروں کو اپنی طرف دیکھنے پر آمادہ کرے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ولا یبدین زینتھن ''اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں ''۔ اسی طرح عورت کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کی نظروں کو اپنے کپڑوں کے ذریعہ اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔ صفحہ نمبر 18 کی عبارت (٣) تیسری شرط : پردہ دبیز ہو اس میں سے بدن وغیرہ نہ جھلکے ،نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا :