ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
نہ صرف اسلام قبول کر رہے تھے بلکہ اپنے کلچر کو چھوڑ کر مسلم کلچر اور زبان کو اختیار کرکے مسلم رنگ میں رنگتے جارہے تھے جس کودیکھ کر چند عیسائی پادریوں نے مشتعل ہو کر اہانت رسول کا ارتکاب کیا۔ انھیںگستاخی رسول کے بدلہ سزائے موت دی گئی تو انھوں نے اسے ایک تحریک کی شکل دے کر لا شہیدی تحریک کا آغاز کیا تاکہ مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد فراہم ہو ۔پھر کچھ دن بعد مسیح کے لیے شہادت حاصل کرنے کا متمنی کسی مسلم عدالت میں پہنچا، قاضی کے سامنے کھڑا ہو کر ہمارے پیغمبر کو گالیاں دیتا، اسلام کو برا کہتا تھا تاکہ جواباًقتل ہو کر شہید بن جائے لیکن کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیںجہاں ملزم کو صفائی کا موقع دئیے بغیر سزائے موت دی گئی ہو جب بھی کسی قاضی کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تو مذکورہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا دوبارہ باقاعدہ مقدمہ کی سماعت اور ملزم کے اقبالی بیان اور گو ا ہیوں کی سماعت کے بعد اسے سزائے موت دی گئی ۔بغیر عدالتی ٹرائل کے کسی کو قتل کرنے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں رہا حالانکہ ایک مسلمان کے لیے اہانت رسول سے بڑھ کر کون سا جرم ہو سکتا ہے؟ تیسری مثال اسی طرح ایسا قاتل جس نے دن دھاڑے قتل کیا ہو ،قاتل و مقتول دونوں معلوم ہوں پھر بھی اس کے و رثاء کے لیے جائز نہیں کہ وہ قاتل کو ازخود قتل کردیں بلکہ انہیں عدالت کے ذریعہ یہ اختیار حاصل کرناپڑے گا ۔علماء نے لکھاہے اگر کسی وارث شخص نے ازخود قاتل کو قتل کر دیا تو تعزیراً اسے سزا دی جائے گی اس لیے کہ اگر قتل کا حق عدالت میں جرم ثابت ہوئے بغیرد ے دیا جائے تو ملک میں لاقانونیت پھیل جائے گی اوریہ بڑے فساد کا ذریعہ بنے گی ۔ انصاف نہ ملنے کے نتائج : اس موقع پر میں حکمرانوں اور سرکاری کارندوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ مظلوم کی داد رسی کے راستے بند کرکے ان کو دیوار سے نہ لگائیں ۔وہ جن اتھارٹیز سے انصاف کے معاملہ میں مایوس ہوگا ان کو بھی ظلم کا ستون اور ظلم میں شامل سمجھے گا۔ اپنے دشمنوں میں اس شخص یا ادارہ کو بھی شامل کر لے گا اور ان کے خلاف بھی لڑے گا حکومت ایسے افرادکو ملک کا باغی قرار دے گی قاتل قرار دے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مظلوم ہے ملک کے دشمن اور باغی وہ افراد اور ادارے ہیں جنھوں نے ایسے لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل ہمارے ملک میں وکلا ء کے قتل کا سلسلہ چلا تھا ایسا کیوں ہوا ؟ اگر غور کریں تو بات خود سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ وکلا ء اپنے موکلین کا استحصال کرتے ہیں فیس لیتے ہیں کیس کی پیروی نہیں کرتے، پیسے نہ ملیں تو اپنے مؤکل کو خود پھنسوا دیتے ہیں بعض وکلا ء مخالف سے پیسے وصول کرکے بک جاتے ہیں اپنے صفحہ نمبر 45 کی عبارت مؤکل کو ہر غلط راستہ اور بیان سکھا تے ہیں۔ یہ کام خاص کر وہ وکلاء کرتے ہیں جو کریمنل کیسز چلاتے ہیں ۔ ایک شخص کو جب عدالت کے ذریعہ بھی انصاف نہیں ملتا تو وہ وکیل اور عد ا لت دونوں کو اپنا دشمن سمجھ کر نشانہ بناتا ہے۔آج کل ڈاکٹروں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے کسی نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ لوگوں نے مسیحا کو کیوں قتل کرنا شروع کر دیا ہے یہاں