ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
دشمن کے سامنے جھک کر صلح کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کے دل میں اسلام کی گنجائش پیدا ہو گئی، نفرتیں محبتوں میں بدلنے لگیں بالآخر وہ وقت آ گیا جب مکہ فتح ہو گیا جیسا کہ قرآن نے صلح کے وقت پیش گوئی کی تھی ۔فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو قتل کرنے والے ان کو اذیتیںدینے والے گھروں سے بے گھر کرنے والے تمام افراد گرفتار ہو گئے مگر آپ ۖنے صاف اعلان فرمایا : الیوم یوم المرحمة لا تثریب علیکم الیوم آج رحمت اور درگزرکادن ہے آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی تم سب آزاد ہو۔ اسلام کے اعلانِ عفو کی بدولت قاتل مسلمانوں کے پاسبان بن گئے، مسلمانوں کو بے گھر کرنے والے خود بے گھر ہونے کے لیے تیار ہو گئے، مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے اسلام کی خاطر اپنی گردن کٹانے والے بن گئے۔ یہ انقلاب اسلامی رواداری کا ثمرہ تھا ۔ مذہبی و سیاسی آزادی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے : اقوام متحدہ کا حقوق ِانسانی کا چارٹر ہر شخص کو یہ آزادی فراہم کرتاہے کہ وہ جس سوسائٹی ،تنظیم ،پارٹی میں شامل ہونا چاہے شامل ہو سکتا ہے۔ دفعہ ٢٠کی دو شقیں یہ ہیں : (١) ہر انسان کو کسی پُر امن سوسائٹی یا جماعت میں شریک ہونے حق حاصل ہے۔ (٢) کسی انسان کو کسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ (انسانی حقوق محمد رحیم حقانی ص١٢٣) پاکستان کا آئین بھی یہ تحفظ فراہم کرتا ہے ۔لہٰذا حکومت کو چاہیے وہ ان راستوں پرنہ خود چلے نہ اپنے کا رندوں کو چلنے دے جن پر چل کر پچھلی حکومتیںنشان عبرت بن چکی ہیں۔ کسی بھی جماعت یا پارٹی پر پانبدی لگانا مسئلہ کا حل نہیں ایسے لوگ کوئی دوسرا نام رکھ کر کا م کا آغاز کر لیںگے، حکومت کتنے ناموں پر پابندی عائد کرے گی ؟ دوسرے یہ کہ پولیس مقابلہ کے ذریعہ یا ظلم و تشدد کے ذریعہ کسی پارٹی کو توڑنا یہ غیر اخلاقی و غیر قانونی طریقہ ہے ۔ایسا کرنے سے رد عمل پیدا ہو گا لوگوں کے دلوں میں فطری بات ہے ایسے افراد سے ہمدردی کاجذبہ پیدا ہو گا جس سے صفحہ نمبر 47 کی عبارت زیر زمین مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ ملزموں کو حصول انصاف کے مواقع اور عام معافی ملنی چاہیے : مناسب صورت یہ ہے کہ حکومت ایسے تمام افراد کو جن کا تعلق کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت سے ہے انھیں موقع فراہم کرے