ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
بنی کریم ۖ کا اپنے صحابہ سے خون کے تحفظ کا عہد لینا : خون ِمسلم کی یہی اہمیت ہے جس کے پیش نظرآپ ۖ نو مسلم صحابہ و صحابیات سے باقاعدہ بیعت لیتے تھے کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہائیںگے ۔ صحیح بخاری کی روایت ہے حضرت عبادہ فرماتے ہیں آپ ۖ جن باتوں پر بیعت لیتے تھے ان میں سے ایک یہ تھی ولا تقتل النفس التی حرم اللّٰہ (بخاری باب من احیاھا)عہد کروناحق کسی انسان کو قتل نہیں کروگے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ قرآن نے خواتین کی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے : ولایقتلن اولاد ھن (الممتحنة /٢)خواتین عہد کریں کہ وہ اپنے بچوں کو جنس کی بنیاد پر یا کھلانے کے خوف سے قتل نہیں کریںگی ۔اس لیے کہ بچوں کا قتل اگرچہ مرد کرتے تھے لیکن اس میں خواتین کی رضا شامل ہوتی تھی دوسرے کبھی وہ اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے نومولود کو قتل کردیا کرتی تھیں اس لیے بھی خواتین سے عہد لیا جاتا تھا۔ لیکن میرا خیال ہے نو مسلموں سے خصوصی طورسے یہ عہد اس وجہ سے لیا جاتا تھا کہ ا س معاشر ہ میں جسے عہد جاہلیت کہا جاتا ہے انسانی خون اپنی قدر وقیمت کھو چکا تھا جو جسے چاہتا قتل کر دیتا تھا، بڑے آدمی کے قصاص میں غریب کو قتل کیاجاتا تھا لیکن غریب اور کمزور کے قصاص میں طاقتور کو معاف کر دیا جاتا یا معمولی جرمانہ لگا دیا جاتا تھا ۔اُردو زبان کی اصطلا ح میں لوگوں کے منہ خون لگ چکا تھا جس سے عادت چھڑانا بہت مشکل کام تھا وہ لوگ سالہا سال تک معمولی باتوں پر خون کی ہولی کھیلتے رہتے تھے اس لیے جہاں ایک طرف عبرت ناک سزا ئیں مقرر کیں وہیں دوسری طرف ان سے عہد بھی لیا تاکہ اُ نھیں اس حکم کی خصوصی نوعیت کا اندازہ ہو ۔ اعانت قتل بھی قتل کی طرح ہے ۔اسلام میں جو سزا قتل کرنے کی ہے وہی سزا قتل میں مدد کرنے والے کے لیے بھی ہے۔ نبی کریم ۖنے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں مددکرے خواہ وہ ایک کلمہ ہی سے کیوں نہ ہو تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھاہو گا '' خدا کی رحمت سے مایوس ''(تفسیر ابن کثیر ج١ ص٣٣٥) جو کسی دوسرے کو قتل کرنے حکم دیتا ہے اس کے بارے میں آپ ۖنے فرمایا : صفحہ نمبر 39 کی عبارت قسمت النار سبعین جزا فللآ مرتسعة وستون وللقاتل جزء (جمع الفوائد ج١ص٢٧٥) آگ ستر حصوں میں بانٹ دی گئی ہے ان میں سے انہتر حصے اس کے لیے ہو گی جو قتل کا حکم دیتا ہے اور ایک حصہ اس قاتل کے لیے جو دوسرے کے کہنے سے قتل کرے۔