ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
(٨)آٹھویں شرط : شہرت والا لباس نہ ہو ۔ اس سے مراد پردہ کا وہ کپڑا ہے جس سے مقصود لوگوں میں شہرت حاصل کرنا ہو،خواہ اعلیٰ ترین کپڑا ہوجس کو تفاخر اً پہناگیا ہو ،یا کمتر کپڑا ہو مگر زہد وتقویٰ کے اظہار کے لیے ریاء کے طورپر پہنا گیا ہو ،اس لیے کہ نبی کریم ۖکاارشا دہے : ''جس شخص نے دُنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا کپڑا پہنائے گا،پھر اس میں آگ بھڑکائے گا۔ (ابوداود) نیز خواتین کو گھر سے باہر نکلتے وقت قرآن وسنت سے ان امور کی پابندی بھی لازم ہے ۔ (١) گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین ایسا زیور پہن کر نہ نکلیں جس میں آواز ہو اور چلنے سے اس میں سے آواز نکلتی ہو۔ (٢) اور زمین پر پائوں اس طرح نہ ماریں کہ جس سے پازیب وغیر کی آواز پیدا ہو۔ (٣) اِترا کر چٹک مٹک کر نہ چلیں کہ جو فتنہ کا باعث ہو۔ (٤) راستوں کے بیچ میں نہ چلیں بلکہ کنارے کنارے چلیں ۔ (٥) اپنے شوہروں کی اجازت کے بغیر نہ نکلیں اور اپنے شوہروں کی بلا اجازت کسی سے بات چیت نہ کریں ۔ (٦) اگر ضرورت کے وقت کسی نامحرم مرد سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو نرم آواز سے بات چیت نہ کریں بلکہ ذرا کرخت آواز میں بات کریں ۔ (٧) گھر سے نکلتے وقت اجنبی مردوں سے نظریں نیچی رکھیں ۔ (٨) مردوں کے ہجوم میںداخل نہ ہوں ۔ (احکام القرآن از حضرت مفتی محمد شفیع صاحب) میری مسلمان بہن ! تم پر پردہ تنگی کے لیے نہیں بلکہ تمہاری عزت و تکریم اور شرافت وبزرگی کے لیے فرض کیا گیاہے ۔شرعی پردہ کے استعمال میں تمہاری حفاظت بھی ہے اور معاشرے میں منکرات وفواحش پھیلنے سے بچا ئو بھی ہے۔ صفحہ نمبر 20 کی عبارت میر ی مسلمان بہن ! مردوں کے ساتھ بے حجابانہ ملنے سے بچ !کیونکہ یہ وہ تبرج ہے یعنی بنائو سنگھار کا اظہار ہے جس سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے :