ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
ایھا الناس … ان دماء کم و اموالکم واعراضکم و ابشارکم و اولادکم حرام علیکم۔ (سیرت ابن ہشام بیروت ج٢ ص٦٠٣) اے لوگو ! بلاشبہہ تمہارے خون اور تمہارے مال ،تمہاری عزتیں ،تمہاری جانیں اور تمہاری اولاد باہم ایک دوسرے کے لیے قابل احترام ہیں ۔ کسی مسلمان کو قتل کرنا یا اس کا مال زبردستی لینا (جیسے بھتہ لینا) یا اس کی بے عزتی کرنا (یہ کام آج کل اخبارات کر رہے ہیں ،ہر شریف انسان کودہشت گرد اور قاتل لکھ دیتے ہیں )یہ سب حرام ہے ۔ انسانی جان کو نقصان پہنچانے والے کی سزا : جو انسانی جان کو کلی یا جزوی نقصان پہنچائے گا اس کی دنیاوی سزا تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ وہی کچھ کیا جائے گا۔جان کے بدلہ جان یعنی قتل کے بدلہ قاتل کو قتل کیا جائے گا ،آنکھ کے بدلہ آنکھ، دانت کے بدلہ دانت توڑا جائے گا(سورۂ بقرہ ١٧٨ اور ١٩٤ ) اور یہ بھی بتادیا کہ قاتل کو قتل کرنے میں ساری انسانیت کی حیات و تحفظ کا راز پوشیدہ ہے (سورۂ بقرہ ١٧٩ )لیکن یہ حق صرف عدالت کو دیا گیاہے ۔ اُخروی سزا : یہ تو دنیاوی سزا ہے ،علماء کے ایک طبقہ کی رائے ہے دنیاوی سزا پانے کے باوجود اُخروی سزا بھی ملے گی اور یہ کہ وہ توبہ بھی کر لے اور سزا بھی بھگت لے ۔قاتل کی اخروی سزا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : ومن یقتل مؤمنا متعمدًا فجزاء ہ جھنم خالدًا فیھا وغضب اللّٰہ علیہ و لعنہ و اعدلہ عذاباعظیما۔ (سورہ النساء ٩٣ ) اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے وہ اسی میں رہے گا اور اللہ کا اس پر غضب ہوگا اور اس کی لعنت، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ یعنی مسلمان کے قتل کرنے والے کی سزا دنیا میںقتل اور آخرت میں جہنم ہے ۔ صفحہ نمبر 38 کی عبارت نبی کریم ۖنے فرمایا : ہر گناہ کے متعلق امید ہے اللہ تعالی معاف کردے سوائے اس شخص کے گناہ کے جو شرک کرتے ہوئے مرا یا جس نے کسی مسلمان کو ناحق قتل کیا ۔ (جمع الفوائد ج١ ص ٢٧٤ )