ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
صدقہ ٔ فِطر ( حضرت مولانا سیّد محمدمیاں صاحب ) معنٰی فطر : روزہ نہ رکھنا یا روزہ رکھنے کے بعد کھولنا ۔ صدقہ ٔ فطر : وہ صدقہ جو رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کریں ۔ عیدُالفِطر : خوشی منانے کا وہ دن جو ختمِ رمضان پرروزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طورپر منائیں ۔ رمضان شریف جو روحانیت کی فصلِ بہار ہے جو اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم اور بہت بڑا انعام ہے۔ کل شام ختم ہوچکا ،جس قدر توفیق ہوئی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم نے بھی حصہ لیا ۔ہم اللہ کے بندے ہیں بندگی کا تقاضا ہے کہ اُس کے انعام کے مکمل ہونے پر خوشی منائیں ۔اللہ کا شکر ادا کریں ،اس کی بڑائی اور عظمت کا زبان سے بھی اعتراف کریں او رعمل سے بھی اُس کا اظہار کریں ۔ہم نہائیں دھوئیں ،صاف ستھرا لباس پہنیں ،خوشبوئیں لگائیں، اُس کی بڑائی اور عظمت کا اقرار کرتے ہوئے گھروں سے نکلیں، ایک جگہ جمع ہوں اور دوگانہ شکر ادا کریں او ر اس دوگانہ میں بھی خاص طورسے اُ س کی بڑائی اور کبریائی کا اعتراف کریں ۔ مگر دیکھو خوشی منانے کے وقت اُن بھائیوں کو نہ بُھولوجوہم سے زیادہ غریب اور زیادہ ضرورت مند ہیں ۔ ہم خوش ہیں تو پہلے اُن کو خوش کریں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ہے ہم اس کے بندوں پراحساس کریں ۔ پس جب ہم نمازِ عید کو جانے لگیں تو جانے سے پہلے اُن کی ضرورتوں کا کچھ انتظام کرجائیں ۔اللہ تعالیٰ نے ایک حد مقرر فرمادی ہے کہ ان غریبوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اتنی مقدار تم اپنے پاس سے دے دو،اسی کو صدقۂ فطر کہتے ہیں ۔ اس کے احکام یہ ہیں : صدقہ ٔ فطرکی مقدار اور اُ س کے احکام صفحہ نمبر 12 کی عبارت مقدار : (الف)گیہوں ، گیہوں کے آٹے یا ستّو کا آدھا صاع (جو ١٣٥ تولہ کا ہوتا ہے ) یعنی ایک سیر گیارہ چھٹانک ۔