ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2002 |
اكستان |
|
کہ وہ ہتھیار پھینک دیں ۔انھیں سرکاری وکیل فراہم کرے تاکہ و ہ انصاف کے حصول کے لیے عدالت کے سامنے پیش ہوسکیں یا پھر عام معافی کا اعلان کرکے موقع دے کہ وہ اگر پرامن زندگی گزارنے کی ضمانت دیں اور آ ئندہ دو سال تک کسی غلط کام میں ملوث نہ ہوں تو ان پر عائد کیسز ختم کر دیے جائیں تو اُمّید کی جاسکتی ہے بہت سے نوجوان جو پولیس،عدالت یا حکومت سے متنفر ہوکر جرائم کے راستوں پر چل پڑے ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ کر پرامن زندگی گزارنے لگیں۔ جو نوجوان اپنے گھر ،معاشرہ اور ماحول سے کٹ جاتاہے وہ ان کے دبائو سے نکل جاتاہے پھر اپنی ضروریات و تحفظ کے لیے دوسروں کا آلہ کا ر بن جاتا ہے لہٰذا ایسے نوجوان اگر اپنے گھروں میںواپس آجائیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے معاشرتی دبائو کے بعد وہ دوبارہ سابقہ راستوں پر چلنے سے باز رہیں گے۔ اس موقع پر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے جس ملزم کو پولیس مقابلہ میں ہلاک کیا جاتاہے وہ ملزم سے ہیرو بن جاتا ہے ،اس کے بھائی رشتہ دار دوست احباب متعلقہ فرد یا ادارہ سے انتقام لینے کے لیے اسی راستہ پرچلنے لگتے ہیں۔ بظاہر ہم سمجھتے ہیں ایک دہشت گرد قتل ہو گیا تو گویا ایک کم ہوگیا حالانکہ اس ایک سے دس پیدا ہو جاتے ہیں اور یو نہی انتقام در انتقام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ پچھلے ادوار میں طویل ترین آپریشن انہی غلط سوچ اور طاقت کے غلط استعمال کا ثمرہ تھا لہٰذا حکومت کے ارباب حل و عقد کو بہت غو ر وخوض کے بعد لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ایسا لائحہ عمل جس میں عفو، رواداری،ملکی استحکام ،قانونی بالادستی اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھاگیا ہو ۔ پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں ٹہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے توہیں