کوبہت سے مسائل میں بہت فائدہ پہنچتا ہے ، اور وہ یہ کہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو مختلف اعمال منقول ہیں وہ دوقسم کے ہیں ۔ بعض اعمال توایسے ہیں جن کے بارے میں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو معمول بنالیا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے وہ اعمال کثرت کے ساتھ ثابت ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کوکرنے کا حکم دیا ہے ، لیکن بعض اعمال ایسے ہیں کہ آنحضرت اسے اکادکا مواقع پر ثابت تو ہیں لیکن ان کومعمول بنالینا یا ان کا التزام کرنایا دوسروں کو ان کی ترغیب دینا ثابت نہیں ہے ، ان دونوں قسموں میں سے ہر ایک کو اپنے مقام پر رکھنا چاہئے۔ پہلی قسم کے اعمال کی پابندی کااہتمام درست اور موافق سنت ہے ، لیکن دوسری قسم کے اعمال کو ان کے مقام پر رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو اسی طرح کبھی کبھار کرلیا جائے جیسا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا، لیکن ان کا مستقل معمول بنالینا مطلوب نہیں ۔
حضرت شیخ الہندؒ نے اس کی مثال یہ بیان فرمائی کہ رکوع سے اٹھتے وقت ربنا لک الحمد کہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ومسنون ہے ، لیکن حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امامت فرمارہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ فرمایا تو کسی صحابی نے قدرے بلند آواز میں کہا:
ربنا لک الحمد حمداً کثیراً طیبا مبارکا فیہ مبارکا علیہ کما یحب ربنا ویرضی۔
نماز ختم ہونے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا :یہ کلمہ کس نے کہا تھا؟ اورجب وہ صحابی حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (تمہارا یہ کلمہ فرشتوں