پناہ اور اس تعلق سے بے انتہاء حساسیت اور فکر مندی ہے، شریعت کے کسی حکم یاکسی سنت کے خلاف کوئی بات یا عمل یا رائے کسی بھی صورت میں قبول اور گوارا نہیں کرتے تھے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ نے لکھا ہے:
’’محرم الحرام ۱۳۳۵ھ کی اخیر تاریخوں میں شیخ الاسلام مکہ معظمہ عبداللہ سراج کی طرف سے نقیب علماء مکہ عصر کے بعد آیا، اور کہا کہ مجھ کو شیخ الاسلام نے بھیجا ہے، اور حضرت شیخ الہند سے اس محضر کی تصدیق طلب کی ہے، مولانا کے اس پر دستخط کرادو، اس کو دیکھا گیا تو عنوان یہ تھا: ’’من علماء مکۃ المکرمۃ المدرسین بالحرم الشریف المکي‘‘ (مکہ مکرمہ کے علماء کی جانب سے جو مکہ کے حرم شریف میں درس دیتے ہیں ) اور اس میں تمام ترکوں کی تکفیر اس بنا پر کی گئی تھی کہ انہوں نے سلطان عبدالحمید خان مرحوم کو معزول کیا ہے، شریف حسین کی بغاوت کو حق بجانب اور مستحسن قرار دیا گیا تھا، اور ترکوں کی خلافت کا انکار تھا، وغیرہ وغیرہ۔ حضرت نے اس پر دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ چوں کہ یہ محضر ان علماء مکہ مکرمہ کی طرف سے ہے جوکہ حرم مکی میں پڑھاتے ہیں اور میں ہندوستان کا باشندہ ہوں ، اور حرم مکی میں مدرس بھی نہیں ہوں ، اس لئے مجھ کو کسی طرح اس پر دستخط کرنا درست نہیں ہے، وہ واپس چلا گیا، حاضرین میں سے بعض احباب نے کہا کہ اس کا نتیجہ خطرناک ہے، حضرت نے جواب دیا کہ پھر کیا کیا جائے؟ نہ عنوان اجازت دیتا ہے نہ معنون، معنون میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سراسر خلافِ شریعت ہیں ‘‘…… دو چار دن کے بعد شریف حسین خود جدہ گیا اور وہاں سے حکم بھیجا کہ فوراً مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء کو گرفتار