اس مرحلے کو حضرت شیخ الہندؒ نے کیسی عزیمت وثابت قدمی کے ساتھ سر کیا، جسم لاغر تھا، عمر اچھی خاصی تھی، سردی کازمانہ ہندوستان میں بھی بڑی مشقت سے گذرتا تھا، اب جیل خانے کی یہ سردی جہاں روئی دار کپڑوں اور آگ سے گرمی حاصل کرنے کی کوئی سہولت بھی نہ تھی، آپ کے لئے سب سے سخت سزا تھی، لیکن اس سب کے باوجود حضرت کے معمولات میں ذرہ برابر فرق نہ آیا، قیام اللیل، تلاوت، ذکر، انابت ودعا کے جو معمولات پہلے تھے، اسی شان سے جاری رہے۔
ان سب کے ساتھ جسمانی ظلم وتشدد کے صبر آزما مرحلوں سے بھی حضرت کو گذرنا پڑا، واقعات میں آتا ہے کہ:
حضرت شیخ الہند کی تدفین کے بعد ان کے مجسم ایثار اور سراپا فدائیت شاگرد شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ سے دریافت کیا گیا کہ حضرت کو غسل دیتے وقت کمر کے اوپر عجیب طرح کے نشانات دیکھنے میں آئے، ایسا لگتا تھا کہ پشت کو آگ سے داغا گیا ہو، یہ سن کر حضرت مدنیؒ آب دیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ: ’’یہ میرے حضرت کا راز تھا‘‘ حضرت نے مجھے تاکید کی تھی کہ میری زندگی میں یہ راز کسی کو مت بتانا، میں نے اس عہد کی پابندی کی؛ لیکن اب عرض کرتا ہوں کہ اسارتِ مالٹا کے دوران ایک موقع پر جب انگریزوں کی طرف سے بے حد اصرار بڑھا کہ تم اپنا موقف بدل دو اور ہماری حمایت کا اعلان کردو، مگر حضرت شیخ الہند نے پوری قوت سے منع کردیا اور اپنے موقف پر بہرصورت ثابت قدم رہنے کا اعلان کردیا، انگریزوں نے آگ جلوائی، انگارے گرم کرائے، حضرت کو ان انگاروں پر لٹادیا گیا، پوری پشت جھلس گئی، یہ سزا جھیلنے کے بعد جب حضرت کمرے میں آئے توتکلیف اتنی شدید