صندوق میں تختوں کے بیچ میں رکھ کر یہ تحریر احتیاط کے ساتھ مولانا ہادی حسن خانجہاں پوری کے ذریعہ ہندوستان بھجوائی، جو بعد میں آپ ہی کے حکم کے مطابق مولانا محمد میاں منصور انصاریؒ کے ذریعہ سرحد اور آزاد قبائل تک پہنچی، اس کے بعد آپ مدینہ منورہ گئے، وہاں ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا اور شامی محاذ کے ذمہ دار جمال پاشا سے مل کر تحریریں حاصل کیں ، پھر افغانستان جانے کا ارادہ کیا، اس سلسلہ میں غالب پاشا سے مدد حاصل کرنے کے لئے طائف گئے کہ اسی دوران شریف مکہ نے انگریزوں سے سمجھوتہ کرلیا، اور ترکوں کے خلاف بغاوت کردی، آپ کو طائف پھر مکہ میں مقیم ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
غالب پاشا کی تحریر (غالب نامہ) نے آزاد قبائل میں جوش آزادی بھردیا تھا، سرگرمیاں بڑھ گئیں ، آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے اور کام کی موجودہ صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے لئے مولانا سندھیؒ نے ایک ریشمی رومال پر حضرت شیخ الہند کے نام ایک خط تحریر کیا، جس میں پوری کارگذاری، آئندہ کے منصوبوں ، حملہ کے مورچوں ، اور دیگر تفصیلات کا ذکر تھا، یہ خط ۱۰؍جولائی ۱۹۱۶ء کو مولانا سندھی نے اپنی تحریک کے ایک معتمد شخص عبدالحق کے سپرد کیا کہ وہ اسے مولانا عبدالرحیم سندھیؒ تک پہنچادے، جو اسے مدینہ منورہ پہنچادیں گے۔
مقدر کا فیصلہ تھا کہ اس تحریک کا راز فاش ہوگیا، عبدالحق راستے میں رب نواز نامی انگریز حکام کے ایجنٹ کے پاس رکا، اس نے کسی طرح یہ خط حاصل کرلیا، اور انگریز حکام کے سپرد کردیا، اس تحریک کے انکشاف نے انگریز حکومت کی نیند اڑادی، پھر تفتیش کا طویل سلسلہ شروع ہوا، شبہات کی بنیاد پر بے شمار افراد گرفتار کئے گئے، شریف مکہ کے ذریعہ ترکوں سے متعلق ایک فتویٰ کو بہانہ بناکر حضرت شیخ الہند کو ان کے سراپا فدائیت رفقاء حضرت مدنیؒ، حضرت مولانا عزیر گلؒ، حکیم نصرت حسینؒ، حضرت مولانا وحید احمد صاحب کے ساتھ گرفتار کرکے مالٹا کے قید خانے میں بھیج دیا گیا، یہ قید بامشقت تین سال سے زائد عرصے پر محیط رہی، مارچ ۱۹۲۰ء میں آپ مالٹا سے رہا ہوکر وطن روانہ ہوئے، اسکندریہ پھر سویس میں کئی ماہ رکنا پڑا، پھر ۸؍جون ۱۹۲۰ء کو ساحل ممبئی پر پہنچے جہاں بڑے جوش وخروش سے آپ کا استقبال