اس کے ناظم مولانا سندھیؒ تھے، اس تحریک سے عوام کو متعارف کرانے کے لئے دارالعلوم کے زیر اہتمام ۱۹۱۱ء میں عظیم الشان اجلاس دستاربندی منعقد ہوا، جس میں ۳۰؍ہزار افراد شریک ہوئے، اور یہ تحریک سرگرم ہوگئی، پھر اس کا باضابطہ پہلا اجلاس اپریل ۱۹۱۱ء میں مرادآباد میں ہوا، انگریز اس سرگرمی سے بہت چوکنا ہوگئے، خدشہ یہ ہوگیا تھا کہ حکومت اس کی وجہ سے دارالعلوم کو نقصان نہ پہنچادے، چناں چہ تیسرے مرحلہ میں یہی تحریک ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ کے نئے نام سے سامنے آئی، یہ ۱۹۱۳ء کی ابتداء تھی، عالم اسلام کے مختلف خطوں پر برطانوی ظلم ومداخلت کا سلسلہ بڑھتا جارہا تھا، ۱۹۱۴ء میں جنگ عظیم شروع ہوئی، جس میں دولت عثمانیہ کو زبردستی گھسیٹا گیا اور اس کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے، ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وتشدد کا رویہ اپنایا جانے لگا، حضرت شیخ الہند نے اس موقع پر تحریک جہاد شروع کرنے کا فیصلہ فرمالیا، یہی تحریک بعد میں ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کہلائی۔
۱۹۱۵ء میں جب جنگ عظیم شباب پر تھی، برطانوی حکومت خطرات کی زد میں تھی، اس کی تمام تر توجہ یورپ کی اس جنگ پر تھی، انہیں حالات میں حضرت شیخ الہند نے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور بیرونی مدد سے یاغستانی آزاد قبائل کی طرف سے ملک پر حملے کے پروگرام کو عملی شکل دینے کے لئے مولانا سندھیؒ کو کابل بھیج دیا، اِدھر ہندوستان میں حالات حساس تھے، ہر وقت گرفتاری کے خطرات تھے، اس لئے حضرت شیخ الہند خود حجاز کا سفر فرماکر جنگی نقشہ مرتب کرنے اور ترکی کی حکومت سے تعاون حاصل کرنے کی مساعی میں مصروف ہوگئے، آپ کی اس تحریک کے ۷؍اہم مراکز تھے: (۱) دیوبند (۲) دہلی (۳) دین پور شریف (۴) مروٹ شریف (۵) کھڈہ کراچی (۶) چکوال (۷) زیگی یاغستان۔
حجاز میں حضرت شیخ الہندؒ نے گورنر مکہ غالب پاشا سے پوری صورتِ حال اور مقصد بتایا، اور ان سے مسلمانانِ ہند کے نام ظالم انگریزوں کے خلاف سرگرم ہونے کا پیغام بھی حاصل کرلیا، یہ پیغام آپ خود براہِ استنبول یاغستان پہنچانا چاہتے تھے، لیکن انگریزوں نے عراق پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے حالات ابتر تھے، بعد میں آپ نے لکڑی کے مخصوص