خواب کے اسلامی آداب و احکام |
خواب کا |
|
اِسی طرح جو شخص جتنا اِخلاص اور نیتِ صادقہ میں جس قدر کم ہوگا اُس کے خواب کا جزء ہونے کا عدد بھی بڑا ہوگا اور چھیالیس چونکہ ایک درمیانہ عدد ہے لہٰذا اکثر کی حالت کا اعتبار کرتے ہوئے اکثر روایات میں چھیالیس کا عدد ذکر کیا گیا ہے ۔و اللہ أعلَم ۔(الکوکب الدری :3/191) علّامہ ابن عبد البرّنے بھی قریب قریب یہی توجیہ بیان کی ہے کہ یہ اختلافِ عدد لوگوں کے احوال کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے ۔اخْتِلَافُ الْآثَارِ فِي هَذَا الْبَابِ فِي عَدَدِ أَجْزَاءِ الرُّؤْيَا لَيْسَ ذَلِكَ عندي اختلاف متضاد متدافع- وَاللَّهُ أَعْلَمُ- لِأَنَّهُ يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةَ مِنْ بَعْضِ مَنْ يَرَاهَا عَلَى حَسَبِ مَا يَكُونُ مِنْ صِدْقِ الْحَدِيثِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، وَالدِّينِ الْمَتِينِ، وَحُسْنِ الْيَقِينِ، فَعَلَى قَدْرِ اخْتِلَافِ الناس فِيْمَا وَصَفْنَاهُ تَكُونُ الرُّؤْيَا مِنْهُمْ عَلَى الْأَجْزَاءِ الْمُخْتَلِفَةِ الْعَدَدِ، فَمَنْ خَلَصَتْ نِيَّتُهُ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَيَقِينُهُ وَصَدَقَ حَدِيثُهُ، كَانَتْ رُؤْيَاهُ أَصْدَقَ، وَإِلَى النُّبُوَّةِ أَقْرَبَ۔(قرطبی :9/123)چھیالیس کے عدد کی توجیہ : اس کی توجیہات میں مختلف اقوال ہیں ،راجح یہ ہے کہ اِس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزء ہونے سے کیا مراد ہے ،لہٰذا تاویل سے بچنا چاہیئے اور تسلیم (اللہ تعالیٰ کے علم کے سپرد کردینے کی رَوش)کو اختیار کرنا چاہیئے ، اِس لئے کہ یہ بات علومِ نبوّت میں سے ہے ان میں کسی قسم کے استنباط اور قیاس سے گریز کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔(مرقاۃ المفاتیح :7/2914) البتہ اس کی ظاہری طور پر جو مشہور توجیہ کی گئی ہے وہ یہ ہے : وحی کا سلسلہ ”رؤیائے صادقہ “ یعنی سچے خوابوں کے ذریعہ شروع ہوا تھا ، تقریباً چھ مہینے تک سچے خوابوں کا سلسلہ چلتا رہا آپﷺجو بھی دیکھتے وہ بعینہٖ پورا ہوجاتا ۔ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ۔(بخاری:6982)نبوّت کی کُل مدّت 23 سال ہے، اُس 23 سالوں کے ساتھ اگر ابتدائی چھ مہینے جوسچے خوابوں کا زمانہ ہے ، اُن کی نسبت دیکھی جائے تو چھیالیسواں جزء بنتی ہے کیونکہ 23 سال