خواب کے اسلامی آداب و احکام |
خواب کا |
|
چنانچہ ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ نبوّت کے جزء ہونے سے مراد بغیر کسی تاویل کے نبوّت کا جزء ہی مراد ہے، کیونکہ اِس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبوّت باقی ہے ، کیونکہ نبوّت کا جزء نبوّت نہیں ہے ، اور پھر اس کی تو خود صراحۃً ”ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ “ میں نفی کردی گئی ہے کہ نبوّت ختم ہوچکی ہے ۔نیز کسی چیز کے جزء کے باقی رہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ چیز بذاتِ خود باقی ہو ، مثلاً:نماز کے جزء کو منفرداً نماز نہیں کہا جاتا ،حج کے افعال میں سے کسی عمل کو حج نہیں کہا جاتا ، ایمان کے شعبوں میں سے کسی ایک شعبہ ہی کو ایمان نہیں کہاجاتا ۔ وَأَرَى الذَّاهِبِينَ إِلَى التَّأْوِيلَاتِ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا قَدْ هَالَهُمُ الْقَوْلُ بِأَنَّ الرُّؤْيَا جُزْءٌ مِنَ النُّبُوَّةِ، وَقَدْ قَالَ:ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، وَلَا حَرَجَ عَلَى أَحَدٍ فِي الْأَخْذِ بِظَاهِرِ هَذَا الْقَوْلِ، فَإِنَّ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ لَا يَكُونُ نُبُوَّةً، كَمَا أَنَّ جُزْءًا مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى الِانْفِرَادِ لَا يَكُونُ صَلَاةً، وَكَذَلِكَ عَمَلٌ مِنْ أَعْمَالِ الْحَجِّ، وَشُعْبَةٌ مِنْ شُعَبِ الْإِيمَانِ۔(مرقاۃ المفاتیح :7/2914) مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع نبوّت کے جزء کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”خواب میں انسان بعض اوقات ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو اس کی قدرت میں نہیں ، مثلاً یہ دیکھتا ہے کہ وہ آسمان پر اُڑرہا ہے یا غیب کی ایسی چیزیں دیکھے جن کا علم اس کی قدرت میں نہیں تھا ،تو اِس کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کے اِلہام اور امداد کے اور کچھ نہیں ہوسکتا جو اصل میں نبوّت کا خاصّہ ہے ، اِس لئے اس کو نبوّت کا ایک جزء قرار دیا گیا ۔واضح رہے کہ اچھے خواب جوکہ نبوّت کا جزء ہوتے ہیں اُن کےباقی رہنے سے سے یہ نتیجہ نکالنا کہ نبوّت باقی ہےجیساکہ ”مرزا غلام احمد قادیانی “ نے سمجھا ہے ،یہ ہر گز درست نہیں اور قرآن مجید کی نصوص قطعیہ اور بےشمار احادیث صحیحہ کے خلاف اور پوری امّت کے اجماعی عقیدہء ختمِ نبوّت کے سراسر منافی ہے “۔(معارف القرآن :5/20)