ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
لوٹ پوٹ ہو جائیں وغیرہ، ایسی کوئی صفت حضرت حکیم الاسلام میں نہیں تھی تو پھر کیسے خطیب تھے ؟ قارئین کرام محظوظ ہوں گے اگر ہم یہ دو واقعے ذکر کر دیں۔ اپنے زمانہ ٔ اہتمام کے ابتدائی دور میں ایک مرتبہ آپ بمبئی تشریف لے گئے، بمبئی بد عات کا گڑھ تھا حضرت حکیم الاسلام کی آمد کا سن کر مبتدعین نے قد ِآدم پوسٹر بمبئی کی سڑکوں پر لگادیے اور اُس میں عوام کو آگاہ کیا کہ (نعوذ باللہ) ''کفارِ دیوبند'' میں یہ شخص ''اکفر الکفار'' ہے کیونکہ دیوبند کے تمام بڑے کفار سے اِسے نسبت حاصل ہے، (شیخ الہند حضرت مولانا) محمود حسن کا مرید ہے، (حکیم الامت حضرت مولانا) اشرف علی تھانوی کا مجاز ہے، (حضرت علامہ سیّد ) انور شاہ کشمیری کا مخصوص شاگرد ہے اور (حجةالاسلام حضرت مولانا) محمد قاسم نانوتوی کا سگا پوتا ہے اِس لیے ساری کفر یہ نسبتیں جمع ہیں، سنی بھائیوں کو چاہیے کہ اِس کی صورت بھی نہ دیکھیں ورنہ اِیمان سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ عجیب اتفاق کہ یہ پوسٹر ہی حضرت حکیم الاسلام کے جلسے کے لیے اور آپ کی تقریر سننے کے لیے لو گوں کی غیر معمولی حاضری کا سبب بن گیا، زیرِ لسان چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آخر دیکھنا تو چاہیے کہ اتنے بڑے ''کافر'' کی شکل و صورت کیسی ہے ؟ اور وہ کیا کیا کفریہ باتیں لو گوں کو تلقین کرتا ہے ؟ اسی پوسٹر میں دوسرے اکابرِ دیوبند کو بھی جی بھر کے سب وشتم سے نوازا گیا تھا، خلاف ِ توقع حضرت حکیم الاسلام کے جلسے میں بہت بڑا مجمع ہو گیا ،کہنے والوں کو کہتے سنا گیا کہ بمبئی کی تاریخ میں اتنا بڑا جلسہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، تا حد ِ نظر سر ہی سر نظر آتے تھے، ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار بندگانِ خدا اُس جلسے میں موجود تھے ،حضرت حکیم الاسلام نے تین گھنٹے وعظ فرمایا مجمع پر سکوت طاری ہو گیا، آپ اپنی عادت کے مطابق مثبت انداز میں تقریر فرمارہے تھے، آیاتِ قرآنی اور احادیث ِ طیبہ سے مزین اکابر اولیاء اللہ کے واقعات و کرامات اور اپنے اسلاف کرام کی خدمات بڑے مؤثر انداز میں بیان فرما رہے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سامعین پر غیر معمولی اثر ہوا اور پورے بمبئی میں مشہور