۴۔ قیاسِ شعری وہ قیاس ہے جو ایسے مقدمات سے بنے جو محض1 خیالی ہوں خواہ واقع میں سچے ہوں یا جھوٹے۔ جیسے: زید چاند ہے (صغریٰ) اور ہر چاند روشن ہے (کبریٰ) پس زید روشن ہے (نتیجہ)
۵۔ قیاسِ سفسطی وہ قیاس ہے جو وہمی اور جھوٹے مقدمات سے بنے۔ جیسے: ’’ہر موجود چیز اشارہ کے قابل ہے‘‘ (صغریٰ) اور ’’جو اشارہ کے قابل ہے جسم والا ہے‘‘ (کبریٰ) پس ’’ہر موجود جسم والا ہے‘‘2 (نتیجہ)۔
یا گھوڑے کی تصویر کے بارے میں کہیں کہ ’’یہ گھوڑا ہے‘‘ (صغریٰ) اور ’’ہر گھوڑا ہنہنانے والا ہے‘‘ (کبریٰ) پس ’’یہ ہنہنانے والا ہے‘‘ (نتیجہ)۔
فائدہ: صناعاتِ خمسہ میں سے معتبر صرف برہان ہے، وہی مفیدِ یقین ہے، باقی کوئی مفیدِ ظن ہے اور کوئی کچھ بھی نہیں۔
تینتالیسواں سبق
یقینی مقدمات کی چھ قسمیں ہیں: اولیات، فطریات، حدسیات، مشاہدات، تجربیات اور متواترات۔
۱۔ اوّلیات وہ قضایا ہیں کہ صرف موضوع ومحمول کے ذہن میں آنے سے عقل ان کو تسلیم کرلے، دلیل کی بالکل ضرورت نہ ہو۔ جیسے: کل جز سے بڑا ہوتا ہے۔
۲۔ فطریات وہ قضایا ہیں کہ جب وہ ذہن میں آئیں تو ان کی دلیل ذہن سے غائب نہ ہو۔ جیسے: چار جفت ہے اور تین طاق ہے۔ 1
۳۔ حدسیات وہ قضایا ہیں جن کی طرف ذہن ایک دم پہنچ جائے،2 صغریٰ کبریٰ ترتیب دینے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے: فن نحو کے ماہر سے پوچھا جائے کہ مساجدُ کیا ہے؟ تو وہ فوراً کہے گا کہ غیر منصرف ہے، جمع منتہی الجموع کا وزن ہے۔
۴۔ مشاہدات وہ قضایا ہیں جو حواسِ خمسۂ ظاہرہ3 یا حواسِ خمسۂ باطنہ سے جانے گئے ہوں۔ جیسے: سورج روشن ہے، یہ آنکھ کے ذریعہ معلوم کیا گیا ہے۔ اور ہمیں بھوک پیاس لگتی ہے، یہ حواسِ باطنی کے ذریعہ حکم کیا گیا ہے۔
۵۔ تجربیات وہ قضایا ہیں جو بار بار کے تجربہ سے معلوم ہوئے ہوں۔ جیسے: گل بنفشہ4 زکام کے لیے نافع ہے۔ یہ بات بار بار کے تجربے سے معلوم ہوئی ہے۔
۶۔ متواترات وہ قضایا ہیں جو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کے ذریعہ معلوم ہوئے ہوں جن کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا عقل باور نہ کرے۔ جیسے: قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آخری نبی ہیں۔ یہ باتیں ہم کو ایسی خبروں سے معلوم ہوئی ہیں کہ ہم ان کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے ہیں۔