۳۵۔ منفصلہ حقیقیہ کی تعریف اور مثال بیان کرو۔
۳۶۔ منفصلہ مانعۃ الجمع کی تعریف اور مثال دو۔
۳۷۔ منفصلہ مانعۃ الخلو کی تعریف اور مثال بیان کرو۔
اٹھائیسواں سبق
تناقض کا بیان
تناقض: دو قضیوں کا اس طرح مختلف ہونا ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو سچا مانیں تو دوسرے کو ضرور جھوٹا ماننا پڑے اور اگر ایک کو جھوٹا مانیں تو دوسرے کو ضرور سچا ماننا پڑے۔ جیسے: ’’زید عالم ہے‘‘ اور ’’زید عالم نہیں ہے‘‘ یہ دو قضیے ہیں اگر ان میں سے ایک سچا ہوگا تو دوسرا ضرور جھوٹا ہوگا۔
نقیض: جن دو قضیوں میں تناقض ہوتا ہے ان میں سے ہر قضیہ کو دوسرے کی نقیض کہتے ہیں۔
نقیضین وہ دو قضیے ہیں جن میں تناقض ہو۔
تناقض کا حکم: جن دو قضیوں میں تناقض ہوتا ہے وہ نہ تو ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں، اور نہ ایک ساتھ جدا ہوسکتے ہیں۔ جیسے مثالِ مذکور میں نہ یہ ہوسکتا ہے کہ زید عالم بھی ہو اور جاہل بھی ہو اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ نہ عالم ہو اور نہ جاہل ہو۔
شرائطِ تناقض کا بیان
دو قضیوں میں تناقض کے لیے عام شرط تو یہ ہے کہ ان میں سے ایک موجبہ ہونا چاہیے دوسرا سالبہ۔ پھر اگر وہ دو مخصوصہ قضیے ہوں تو آٹھ باتوں میں اتحاد بھی ضروری ہے، جو وحداتِ ثمانیہ کہلاتی ہیں۔ اور اگر وہ دو محصورہ قضیے ہوں تو کلی اور جزئی ہونے میں اختلاف بھی ضروری ہے، یعنی ان میں سے ایک کلیہ ہو تو دوسرا جزئیہ۔ (مثالیں اور وحداتِ ثمانیہ کا بیان آیندہ سبق میں ہے)۔
انتیسواں سبق
وحداتِ ثمانیہ
دو قضیوں میں تناقض کے لیے آٹھ باتوں میں اتحاد ضروری ہے، جو وحداتِ ثمانیہ کہلاتی ہیں۔ وہ یہ ہیں:
۱۔ دونوں قضیوں کا موضوع ایک ہو، پس ’’زید کھڑا ہے‘‘ اور ’’عمر کھڑا نہیں ہے‘‘۔ ان میں تناقض نہیں، کیوں کہ دونوں