جائے تو وہ قطعی ہوگا۔ جیسے: اہلِ حق کا یہ فیصلہ کہ تمام صحابۂ کرام ؓروایتِ حدیث میں معتبر ہیں۔
اڑتیسواں سبق
تمثیل کا بیان
تمثیل کے لغوی معنی ہیں مشابہت دینا، ایک جیسا ہونا بتلانا۔ اور اصطلاحی معنی ہیں جب کسی خاص جزئی میں کوئی بات (حکم) ملے اور سوچنے سے اس کی وجہ (علت) بھی معلوم ہوجائے، پھر وہی وجہ ایک دوسری جزئی میں بھی پائی جائے، پس اس میں بھی وہی بات ثابت کرنا تمثیل ہے، فقہا کی اصطلاح میں اس کو قیاس کہتے ہیں۔ جیسے: قرآن پاک میں یہ حکم ہے کہ شراب حرام ہے، اور غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس کی وجہ نشہ آور ہونا ہے، اب یہی وجہ بھنگ،1 افیم، چرس اور گانجے میں بھی پائی گئی تو ان میں بھی حرام ہونے کا حکم لگا دیا۔
تمثیل میں چار چیزیں ہوتی ہیں:
۱۔ اصل (مَقِیْس علیہ): پہلی چیز جس میں وہ حکم ملا ہے۔ جیسے: شراب۔
۲۔ فرع (مَقِیْس): دوسری چیز جس میں پہلی چیز کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ جیسے: بھنگ وغیرہ۔
۳۔ علت وہ وجہ ہے جو پہلی چیز میں سے سوچ کر نکالی گئی ہے۔ جیسے: نشہ آور ہونا۔
۴۔ حکم: وہ بات جو اصل میں تھی اور اس کو فرع میں بھی جاری کیا گیا۔ جیسے: حرام ہونا۔
تمثیل کا حکم: تمثیل سے بھی یقین کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا، اس لیے کہ مقیس علیہ میں سے جو علت نکالی گئی ہے ممکن ہے وہ اس حکم کی علت نہ ہو۔ 1
انتالیسواں سبق
دلیلِ لمّی اور دلیلِ اِنّی
حدِ اوسط نتیجہ کے علم کی علت ہے: قیاس میں دو قضیوں کو ماننے کی وجہ سے جو ہم کو نتیجہ کا علم ہوتا ہے وہ حدِ اوسط کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسے: ’’ہر انسان جان دار ہے‘‘ (صغریٰ) اور ’’ہر جان دار جسم دار ہے‘‘ (کبریٰ) ان دو باتوں سے ہمیں یہ علم ہوا کہ ہر انسان جسم والا ہے، یہ علم ہمیں حدِّ اوسط ’’جان دار‘‘ کی وجہ سے حاصل ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے صغریٰ میں حد اوسط اصغر کے لیے ثابت کی گئی ہے، پھر کبریٰ میں اسی حدِّ اوسط کے لیے اکبر کو ثابت کیا گیا ہے اور