کا موضوع ایک نہیں۔
۲۔ دونوں قضیوں کا محمول ایک ہو، پس ’’زید کھڑا ہے‘‘ اور ’’زید بیٹھا نہیں ہے‘‘ ان میں تناقض نہیں، کیوں کہ دونوں کا محمول ایک نہیں۔
۳۔ دونوں قضیوں میں جگہ ایک ہو، پس ’’زید مسجد میں بیٹھا ہے‘‘ اور ’’زید گھر میں نہیں بیٹھا ہے‘‘ ان میں تعارض نہیں، کیوں کہ مکان ایک نہیں۔
۴۔ دونوں قضیوں میں شرط ایک ہو، پس ’’زید کی انگلیاں ہلتی ہیں اگر وہ لکھتا ہو‘‘ اور ’’زیدکی انگلیاں نہیں ہلتی ہیں اگر وہ نہ لکھتا ہو‘‘ ان میں تناقض نہیں، کیوں کہ شرط ایک نہیں۔
۵۔ دونوں قضیوں میں نسبت ایک ہو، پس ’’زید عمر کا باپ ہے‘‘ اور ’’زید بکر کا باپ نہیں ہے‘‘ ان میں تناقض نہیں، کیوں کہ اضافت ایک نہیں۔
۶۔ دونوں قضیوں میں جزو کل کا اختلاف نہ ہو، یعنی یا تو دونوں قضیوں میں کل پر حکم لگایا گیا ہو یا جز جز پر، ایسا نہ ہو کہ ایک قضیہ میں توکُل پر حکم لگایا گیا ہو اور دوسرے میں جز پر۔ جیسے: ’’یہ کھانا کافی نہیں‘‘یعنی سب کے لیے اور ’’یہ کھانا کافی ہے‘‘ یعنی بعض کے لیے۔ ان میں تناقض نہیں، کیوںکہ ایک حکم کل پر لگایا گیا ہے اور دوسرا جز پر (باقی وحدات کا بیان آیندہ سبق میں ہے)
تیسواں سبق
باقی وحدات کا بیان
۷۔ دونوں قضیوں میں قوت وفعل کا اختلاف نہ ہو، یعنی دونوں قضیوں میں محمول موضوع کے لیے یا تو بالفعل ثابت ہو یا بالقوہ،1 ایسا نہ ہو کہ ایک قضیہ میں محمول موضوع کے لیے بالفعل ثابت ہو اور دوسرے میں بالقوہ۔ جیسے: ’’یہ شیرۂ انگور شراب نہیں ہے‘‘ یعنی بالفعل اور ’’یہ شیرۂ انگور شراب ہے‘‘ یعنی بالقوہ۔ ان میں تناقض نہیں ہے، کیوں کہ ایک حکم بالفعل ہے اور دوسرا بالقوہ۔
۸۔ دونوں قضیوں میں زمانہ ایک ہو، پس ’’زید دن میں پڑھتا ہے‘‘ اور ’’ زید رات میں نہیں پڑھتا ہے‘‘ ان میں تناقض نہیں ہے، کیوں کہ زمانہ ایک نہیں ہے۔
فائدہ: کسی شاعر نے ان وحداتِ ثمانیہ کو نظم کیا ہے۔ یہ اشعار یاد کرلو۔