ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا) (سُورۂ بنی اسرائیل : ٢٣ ، ٢٤ ) ''اور تیرے رب نے حتمی حکم دیا ہے کہ اُس کے سوا تم کسی کی عبادت اور بندگی نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھائی کرو۔ اگر اُن میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو'' اُونھ'' بھی نہ کہو اور اُن سے خفگی کی بات نہ کرو اور اُن سے اَدب و تمیز سے بولو اور خاکساری و نیاز مندی کے ساتھ اُن کی اِطاعت کرو اور اُن کے حق میں خدا سے اِس طرح دُعا بھی کرتے رہو کہ اے پروردگار ! تو اِن پر رحمت فرما جس طرح اِنہوں نے بچپن میں مجھے شفقت سے پالا پرورِش کیا۔'' قرآن شریف ہی کی ایک دُوسری آیت میں ماں باپ کا حق بیان کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا گیا ہے : ( وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْم فَلَا تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا)( سُورۂ لقمان : ١٥ ) '' اگر بالفرض کسی کے ماں باپ کافر اور مشرک ہوں اور وہ اَولاد کو بھی کفر و شرک کے لیے مجبور کریں تو اَولاد کو چاہیے کہ اُن کے کہنے سے کفرو شرک تو نہ کرے لیکن دُنیا میں اُن کے ساتھ اچھا سلوک اور اُن کی خدمت پھر بھی کرتی رہے۔ '' قرآن شریف کے علاوہ حدیثوں میں بھی ماں باپ کی خدمت واِطاعت کی بڑی تاکید فرمائی گئی ہے اور اُن کی نافرمانی اور اِیذا رسانی کو سخت گناہ بتلایا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے : ''ماں باپ کی رضامندی میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور ماں باپ کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ '' ایک دُوسری حدیث میں ہے : ''ایک شخص نے حضور ۖ سے دریافت کیا کہ اَولاد پر ماں باپ کے کیا حقوق